نواز، زرداری ملاقات کا التوا
اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام ایک ’’قبائلی جرگے‘‘ سے سابق صدر آصف علی زرداری کے دھواں دار خطاب کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے ان سے اپنی طے شدہ ملاقات کو ’’موخر‘‘ کر دیا۔ وزیراعظم کے ایک قریبی رفیق کار نے ’’مہمان عزیز‘‘ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وقت اس ملاپ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ اس لئے (ہاتھ بڑھانے سے پہلے) کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ افواج پاکستان پر جناب زرداری کی شدید تنقیدی تقریر نے ماحول میں تلخی گھول دی تھی۔ سابق صدر نے بڑے پرزور لہجے میں فوجی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے متنبہ کیا تھاکہ اگر ان کی کردار کشی جاری رکھی گئی تو وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ اگر وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو پشاور سے کراچی تک لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔۔۔ اس تقریر سے پہلے جناب زرداری کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات طے ہو چکی تھی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اس توقع کا اظہار بھی کیا تھا کہ نوازشریف ان کا ساتھ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ عمران خان کا ساتھ دیتے تو نئے انتخابات کو روکنا ممکن نہ رہتا۔ ان کا یہ بھی ارشاد تھا کہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد ان ہی نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر حالات کا رُخ بدل دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تنگ مت کرو، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ میں نے فہرست بنائی تو قیام پاکستان سے اب تک کئی جرنیلوں کے نام آئیں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف کی تین سالہ میعاد عہدہ (TENURE)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری آرمی ہمارا ادارہ ہے۔ آپ کو تین سال رہنا ہے جبکہ ہمیں یہاں (مستقل طور پر) رہنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی جنگ سے نہیں ڈرتی، جنگ کرنا ہمیں آتا ہے۔سابق صدر کی گفتگو میں اگرچہ فوج کا ایک ادارے کے طور پر احترام برقرار رکھنے کی کوشش موجود تھی اور حالات کی سنگینی کا احساس بھی، لیکن مجموعی لہجے سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ سندھ میں رینجرز کے بعض اقدامات سے انہیں تکلیف پہنچی ہے اور وہ اسے سندھ حکومت کی آئینی حدود میں مداخلت سمجھ رہے ہیں۔
وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے فوراً تند و تیز ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس بیان کو انتہائی نامناسب، بلاجواز اور ہتک آمیز قرار دیا اور اس کی پوری شدت سے مذمت کی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کا ذمہ دار کوئی (قومی) ادارہ نہیں، اس کی اپنی سابقہ کارکردگی ہے۔ چودھری صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرز سیاست سے قومی تشخص اور اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے فوری طور پر کسی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجائے اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس طلب کر لیا، جس میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں نے شرکت کی۔طویل غوروخوض کے بعد جناب زرداری کے بیان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ فوج پر تنقید سے ملک دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عسکری و سیاسی قیادت کی ہم آہنگی سے جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے اس نازک مرحلے پر قومی سطح کا اتفاق رائے ضروری ہے۔سیاسی استحکام اور قومی اتفاق رائے کے ساتھ ہی ملک تعمیر و ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ مسلح افواج کے افسر اور جوان آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے موثر کردار ادا کررہے ہیں۔ انہیں پوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔ ان حالات میں فوج جیسے اہم ادارے پر تنقید نامناسب اقدام ہے۔
وزیراعظم کے طلب کردہ مشاورتی اجلاس میں طے کیا گیا کہ سابق صدر سے اگر وزیراعظم کی طے شدہ ملاقات کا انعقاد ہوا تو اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی، اسے ایک منفی اشارہ سمجھا جا سکتا ہے اور اس سے مستقبل میں وزیراعظم کے قائدانہ کردار کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں، اس لئے اس ملاقات کو موخر کر دیا جائے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف چونکہ روس کے دورے پر تھے، اس لئے ان کی آمدکے بعدانہیں اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی اقدام کرنا زیادہ مناسب اور موثر ہوگا۔
وزیراعظم کے اس فیصلے نے پیپلزپارٹی کے اعلیٰ حلقوں میں جھنجھلاہٹ کو جنم دیا، لیکن جن حالات میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، اگر انہیں مدنظر رکھا جائے تو اس کو بلا جواز قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔بعدازاں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اپنے ’’کوچیئرمین‘‘ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس معاملے کو اداروں کی جنگ سے تعبیر نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کریں۔وزیراعلیٰ سندھ نے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل کے نام خط میں بھی یہ بتانے کی کوشش کی کہ رینجرز کو دہشت گردی کے خاتمے میں مدد دینے کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ حکومتی معاملات میں مداخلت ہے ،اپنی حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اس خط کی نقل وزیرداخلہ کو بھی بھجوا دی گئی ۔
وزیراعظم نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں پر لازم ہے کہ وہ صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے اقدامات کریں۔ رینجرز جہاں دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ان کو وسائل فراہم کرنے والوں کے تعاقب میں ہر کام کرنا اپنے مینڈیٹ کا حصہ قرار دے رہے ہیں، وہاں سندھ حکومت اور آصف علی زرداری صاحب کا موقف دوسرا ہے۔ یہ درست ہے کہ قومی زندگی کو مافیاز سے پاک کرنا ہماری اولین ضرورت ہے، لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ سیاسی اداروں کے خلاف صف آرائی سے بھی گریز کیا جانا چاہیے۔ماضی میں ہم اس طرح کے تصادموں میں بہت کچھ گنوا چکے ہیں، اس کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے تعاون کی فضا برقرار رکھتے ہوئے پیش قدمی ضروری ہے۔ وزیراعظم کی جناب زرداری سے ملاقات کے التوا کو آخری نہیں پہلا قدم سمجھا جانا چاہیے، انہیں حالات کو سنبھالنے کے لئے پیش قدمی کرنا ہوگی رابطے توڑ کر بیٹھ جانا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ مجرموں کی سرکوبی ہونی چاہیے اور سیاست کو جرم کی ڈھال نہیں بنانا چاہیے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ مجرموں کی سرکوبی کو بنیاد بنا کر سیاست اور سیاستدانوں کی بے توقیری کا تاثر بھی قائم نہیں ہونا چاہیے۔