بار کونسلز فوجی عدالتوں کے غیر آئینی ہونے پر متفق ہیں ، بنیاد اور دلائل الگ ہیں ، چیف جسٹس
اسلام آباد ( آئی این پی ) سپریم کورٹ میں 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ بار کونسلز فوجی عدالتوں کے غیر آئینی ہونے پر متفق ہے لیکن بنیاد اور دلائل الگ ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ آئین میں پارٹی سربراہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں ، پارٹی سربراہوں کو بااختیار کرنے سے جمہوریت متاثر ہوئی ، ملک میں پارلیمانی نہیں پارٹی جمہوریت دیکھ رہے ہیں ۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں 18 اور 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ نے سماعت کی۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے ترامیم کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جنگل کے قانون کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ، لوگوں کو خدشہ ہے کہ داڑھی رکھ کر باہر نکلے تو اٹھا لئے جائیں گے ۔ عدلیہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر مداخلت کرسکتی ہے ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو کورٹ کو مداخلت کرنی چاہیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ بار کونسلز فوجی عدالتوں کے غیر آئینی ہونے پر متفق ہے لیکن بنیاد اور دلائل الگ ہیں ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں آج پارٹی سربراہ زیادہ مضبوط ہیں ، پارٹی سربراہوں کو بااختیار کرنے سے جمہوریت متاثر ہوئی ، ملک میں پارلیمانی نہیں پارٹی جمہوریت دیکھ رہے ہیں ، اگر پارلیمنٹ غلامی کو جائز قرار دے تو کیا ہم جا کر کہہ سکتے ہیں ؟ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ آئینی ترامیم کی قانون سازی کے معاملے میں دائرہ کار کو کیسے وسعت دیں ، نسل کشی ہورہی ہو تو کورٹ مداخلت کرسکتی ہے ، جو سمجھتے ہیں پارٹی رہنماؤں نے غلط فیصلہ کیا وہ استعفیٰ دیدیں ۔ سپریم کورٹ میں 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ۔