سندھ حکومت نے رینجرز کو کاروائی کا اختیار دیا ،اب اختیار ات سے تجاوز کا گلہ کیوں؟
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
آصف علی زرداری کو شعلہ بار تقریر کرنے پر کیوں مجبور ہونا پڑا، اور اگلے ہی روز وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کو یہ خط لکھنے پر کیوں مجبور ہوئے کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں، اس خط کی روشنی میں ملین ڈالر کا یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی رینجرز نے ان اختیارات سے تجاوز کیا ہے جو اسے سونپے گئے تھے؟ ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں میں تو فیصلہ یہی ہوا تھا کہ کسی رو رعایت کے بغیر جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری ہو گی، ایپکس کمیٹی کے ایک حالیہ اجلاس میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ جرائم پیشہ لوگوں کو ملنے والے پیسے کو جب تک نہیں روکا جائے گا اس وقت تک امن و امان ممکن نہیں ہوگا، ڈی جی رینجرز نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جو بریفنگ دی اور جسے باقاعدہ ایک پریس ریلیز کی شکل میں جاری کیا گیا اس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ 230 ارب روپے سالانہ غیر قانونی طریقوں سے کمائے جا رہے ہیں اور اس بڑی رقم کا ایک حصہ دہشت گردی کے فروغ میں استعمال ہوتا ہے، اس کاروبار میں کون کون ملوث ہے پریس ریلیز میں ان کا بھی تذکرہ ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا سید قائم علی شاہ کو رینجرز کو خط لکھنے کی ضرورت اس پریس ریلیز کی اشاعت کے بعد محسوس ہوئی؟ رینجرز 91 ء سے کراچی میں امن و امان کی وہ ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہے جو بنیادی طور پر پولیس کو ادا کرنی چاہیں لیکن جب پولیس اس محاذ پر کامیاب نہ ہو سکی تو رینجرز کو بلانا پڑا، اور اسے پولیس کے بعض اختیارات بھی سونپ دئیے گئے، یہ اختیارات ایک معینہ مدت کے لئے سونپے جاتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر ان میں توسیع کی جاتی ہے، ربع صدی گزر گئی جب رینجرز کو طلب کیا گیا تھا، آج تک رینجرز اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں، سندھ کے حالیہ بجٹ میں رینجرز کے لئے فنڈز میں اضافہ بھی کیا گیا ہے، یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر سندھ کی حکومت واقعی یہ سمجھتی ہے کہ رینجرز اپنے اختیارات سے تجاور کر رہے ہیں، تو پھر انہیں کراچی میں امن و امان بحال کرنے کی اس ذمے داری سے سبکدوش کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ کیا ضروری ہے کہ سندھ میں طویل عرصے کیلئے رینجرز کو ذمہ داریاں بھی سونپی جائیں اور پھر یہ گلہ بھی کیا جائے کہ اختیارات سے تجاوز کیا جا رہا ہے، کراچی کے ایک سینئر اخبار نویس کا تجزیہ ہے کہ خط لکھنے کے باوجود سندھ حکومت رینجرز کو امن و امان کے قیام کی ذمہ داری سے سبکدوش کرنے کا رسک نہیں لے گی کیونکہ ایسی صورت میں خود وزیراعلیٰ اور وزراء کی حفاظت کی ذمہ دایاں کون سنبھالے گا؟ وزیراعلیٰ اور ’وزراء‘ رینجرز کے جلو میں گاڑیوں کے جلوسوں میں سفر کرتے ہیں، رینجرز اگر آگے پیچھے نہ ہوگی تو کیا وہ بلاخوف و خطر اپنے گھروں سے نکل بھی سکیں گے؟ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ اور وزراء ایک دو دن کے لئے رینجرز کے حفاظتی دستوں کے بغیر اپنے گھروں سے نکل کر تو دیکھیں۔ اگر وہ خیر و عافیت کے ساتھ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائیں تو پھر ایسے خط کی حکمت بھی سمجھ میں آجائیگی، کراچی کے حالات ایسے ہیں کہ رینجرز کی موجودگی کے باوجود شہر میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں ہو جاتی ہیں، اسماعیلیوں کی بس کو اغوا کرکے مسافروں کو چڑیوں کی طرح شکار کرلیا جاتا ہے، پروفیسروں کو گھر جاتے گاڑیوں میں مار دیا جاتا ہے، سبین محمود جیسی سوشل ورکر کو بھی نہیں بخشا جاتا، ایسے میں رینجرز کو بیرکوں میں بھیجنے کا حوصلہ کون کرے گا؟ اور اگر کرے گا تو نتیجہ بھی بھگت لے گا، کراچی کی قتل و غارت کے پس منظر میں پلاٹوں پر قبضے کی ہوس بھی ایک مبرم حقیقت ہے، کوئی چھ سات سال پہلے اردشیر کاؤس جی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ کراچی میں ایک سال کے دوران ساڑھے تین ہزار ایسے پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹس کر دی گئیں جو رفاہی کاموں کے لئے مختص کئے گئے تھے، ان پر پارک بنتے، تعلیمی ادارے یا پھر ہسپتال وغیرہ کی طرح کے رفاہی کاموں کے لئے یہ پلاٹ مخصوص تھے، لیکن ان پلاٹوں کی بندر بانٹ کر دی گئی، انہوں نے اس کا ذمہ دار پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو ٹھہرایا تھا، اسی کالم کے انکشافات کی روشنی میں کراچی کے سابق بزرگ ضلعی ناظم نعمت اللہ خان سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن لے کر گئے کہ ان پلاٹوں کا غیر قانونی قبضہ ختم کرایا جائے، سپریم کورٹ نے اس درخواست پر حکم دیا کہ پلاٹ خالی کروائے جائیں اور جو عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں وہ مسمار کر دی جائیں اور پلاٹوں کی اصل حیثیت بحال کرکے انہیں رفاہی مقاصد کے لئے مختص کیا جائے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کھیل کے میدان کے لئے مختص پلاٹ پر میٹرو سٹور بن گیا جو ایک کمرشل ادارہ ہے، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ان کی جماعت کے کچھ لوگ پلاٹوں پر ناجائز قبضے میں ملوث ہیں، انہوں نے اس الزام کو برسرعام دہرایا، ’’چائنہ کٹنگ‘‘ کی اصطلاح بھی ایسے ہی غیر قانونی قبضوں کے لئے استعمال ہوتی ہے جہاں کھیل کے میدان کمرشل اداروں کے قبضے میں چلے جائیں وہاں اگر سالانہ 230 ارب روپے غیر قانونی ذرائع سے کمانے کا تخمینہ سامنے آیا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر رینجرز کا حالیہ چھاپہ بھی اسی پس منظر میں دیکھا جاتا ہے، کیونکہ دستاویزات سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ الاٹ شدہ پلاٹوں کے نقشے کیسے منظور ہو جاتے ہیں، ایک تو پلاٹوں کی الاٹمنٹ غیر قانونی اور دوسرے نقشوں کو منظوری بھی قانون کے خلاف ایسا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اعلیٰ افسروں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کی منظوری کے بغیر کیسے ہوسکتا ہے؟ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے زرداری کو شعلہ بار خطاب کرنا پڑا۔