فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 124
ہمارا خیال تھا کہ راہی صاحب ہی امامت کے فرائض سرانجام دیں گے مگر انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور بولے ’’آفاقی صاحب، آئیے نماز پڑھائیے‘‘۔
ہم نے گھبرا کر انہیں دیکھا۔ اس سے پہلے ہمیں زندگی میں کبھی امامت کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اس اچانک فرمائش پر سچ مچ بوکھلا گئے۔
’’ارے نہیں راہی صاحب ہم نے کبھی نماز نہیں پڑھائی۔ آپ ہی امامت کیجئے‘‘۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ انہوں نے اصرار کیا۔
’’ہم واقعی اس لائق نہیں ہیں‘‘۔ ہم نے معذرت پیش کی۔
’’ارے آغا جی۔ بس رہنے دیجئے یہ انکسار، وقت تنگ ہے آئیے نماز پڑھائیے نا‘‘۔
راہی صاحب نے اصرار کیا تو دوسرے حضرات بھی مصر ہوگئے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کریں۔ امامت کرنے کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور آج یہ فرض ہمیں سونپا جارہا تھا۔ بار بار معذرت کرنا بھی کچھ اچھا نہیں لگا۔ وہی بات ہے کہ مرتا کیانہ کرتا۔ قہر درویش بر جان درویش، ہچکچاتے ہوئے آگے بڑھ کر کھڑے ہوگئے۔ نمازیوں کی تعداد بارہ پندرہ سے زیادہ نہیں تھی مگر امامت کے تصور ہی سے ہمارے پیر من من بھر وزنی ہوگئے تھے۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 123 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان راہی نے اقامت کہی اور ہم نے ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر نیت باندھی۔ مقتدیوں نے بھی ہمارے پیچھے نیت باندھ لی۔ رکوع میں جانے کیلئے ہم نے اللہ اکبر کہا اور سب رکوع میں چلے گئے۔ تین بار سبحان ربی اللہ العظیم پڑھ کر رکوع سے اٹھنے کیلئے ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہنے کا وقت آیا تو ہم بھول گئے۔ سارے نمازی ہمارے پیچھے رکوع میں تھے۔ ہم بھی رکوع میں تھے اور ذہن پر زور دینے کے باوجود یاد نہیں آرہا تھا۔ چند سیکنڈ اسی طرح گزر گئے اور ہم گھبراگئے۔ نماز پڑھنے والوں کیلئے یہ ایک معمول ہے لیکن پھر بھی ہمیں یاد نہیں آرہا تھا کہ رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہونے کیلئے کیا کہیں۔ دس سیکنڈ گزر گئے۔ پندرہ، بیس، تیس سیکنڈ گزرے، یہاں تک کہ ایک منٹ گزرگیا۔ جتنا ذہن پر زور ڈالتے تھے اتنا ہی بھولتے جاتے تھے اور سب کے سب رکوع میں تھے۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی مقتدی یاد دلا دے۔ لیکن پیچھے کی صف سے کوئی آواز نہیں آئی۔ ہم جتنا ذہن پر زور دے رہے تھے دماغ سلیٹ کی طرح صاف ہو رہا تھا۔ جوں جوں دیر ہو رہی تھی توں توں ہماری پریشانی اور گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی یکایک دماغ میں ایک بجلی سی کوندی اور ہمیں سمع اللہ یاد آگیا۔ ہم نے توخیر دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا ہی تھا مگر دوسرے نمازیوں نے بھی اطمینان کی سانس لی۔ نماز ختم ہوئی تو ہم نے شرمندگی سے حاضرین کی طرف دیکھا۔ اور لوگوں کے چہرے پر تو مسکراہٹ تھی مگر راہی صاحب سنجیدہ شکل بنائے کھڑے تھے۔
ہم نے شکوہ کیا ’’اسی لئے کہتے تھے کہ ہم سے امامت نہ کرائیں۔ خیر ہم تو بھولے ہی تھے مگر آپ بھی کچھ نہیں بولے‘‘۔
وہ ہنسنے لگے ’’کیا آپ واقعی بھول گئے تھے؟‘‘
ہم نے کہا ’’بھولتے نہیں تو دو منٹ تک رکوع میں کیوں جھکے رہتے؟‘‘
کہنے لگے ’’میں سمجھا شاید آپ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ بھول گئے ہوں گے۔ کوئی نماز پڑھنے والا یہ باتیں کیسے بھول سکتا ہے‘‘۔
اس طرح یہ بات رفع دفع ہوگئی۔ مگر ۱۹۸۴ء کو ایک شام کا یہ واقعہ ہمیں عمر بھر یاد رہے گا اور سلطان راہی صاحب کی یاد دلاتا رہے گا۔
بات یہ ہورہی تھی کہ سلطان راہی نے ایسے لوگوں کو بھی نماز پڑھنے پر مجبور کردیا جو عام حالات میں نماز نہیں پڑھتے۔ مسجد کا کوئی بھی کام ہو۔ اسے کرنے کیلئے راہی صاحب ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ایورنیو اسٹوڈیو میں مسجد کی تعمیر کی تحریک سلطان راہی کی جانب سے ہی ہوئی تھی۔ نگار خانوں میں مسجدیں تو ہوتی تھیں مگر عام اور سادہ۔ شاہ نور اسٹوڈیو کے بڑے گیٹ کے سامنے عرصہ دراز تک ایک چبوترہ مسجد کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہاں لائٹ مین، قلی، مزدور، چوکیدار اور اسی قسم کے چھوٹے موٹے لوگ نماز پڑھا کرتے تھے جب کوئی ’’بڑا‘‘ آدمی مسجد کا رخ ہی نہ کرے تو مسجد کو بہتر بنانے کا خیال بھلاکسے آئے گا۔ یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے سلطان راہی کی قسمت میں لکھ دی تھی۔ نماز تو وہ اس زمانے میں بھی پڑھتے تھے جب ایکسٹرا سلطان تھے مگر اس وقت جھاڑو اٹھا کر مسجد کے چبوترے کی صفائی کرنے کے سوا وہ مسجد کیلئے کچھ اور کرنے سے معذور تھے مگر جب وہ اسٹار اور پھر سپر اسٹار سلطان راہی بنے اور نماز کیلئے اسٹوڈیوز کی مساجد میں جانے لگے تو ان کی دیکھا دیکھی دوسروں کو بھی تحریک ہوئی۔ کچھ ایسے بھی تھے جو ان سے ڈیٹ لینے یا انہیں خوش کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ ساتھ مسجد میں چلے جایا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض اس طرح واقعی نماز پڑھنے کے عادی ہوگئے اور باقاعدہ نمازی بن گئے۔ ’’بڑے‘‘ آدمی اگر بھلائی کی طرف راغب ہوجائیں تو ان کی دیکھا دیکھی اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بھی دوسرے لوگ ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں اور ایک بہتر معاشرہ اسی طرح وجود میں آتا ہے۔ وہ پرانی کہاوت آپ نے سنی ہوگی کہ ’’جیسا راجہ، ویسی پرجا‘‘۔ چھوٹے پیمانے پر سلطان راہی اس کی صداقت کا عملی ثبوت تھے۔
ایورنیو اسٹوڈیوز ہمیشہ سے مصروف ترین اسٹوڈیو رہا ہے۔ زیادہ تر بڑے فلمسازوں کے دفاتر اسی اسٹوڈیو میں تھے اور بڑے بڑے اداکار فلم ساز اس اسٹوڈیو میں شوٹنگ کیا کرتے تھے۔ یہاں بھی ایک جگہ نماز کیلئے مخصوص تھی۔ اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل بذات خود پنج وقتہ نمازی تھے مگر اتنے خوبصورت اسٹوڈیو کی تعمیر کے وقت ایک خوب صورت سی مسجد تعمیر کرنے کا خیال انہیں اس وقت نہ آیا اور آتا بھی کیوں۔ کوئی بھی سپر اسٹار یا قابلِ ذکر شخصیت کو نماز پڑھنے کیلئے مسجد کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شاندار ائرکنڈیشنڈ کمروں میں جوئے اور شراب کی محفلیں البتہ باقاعدگی سے جما کرتی تھیں۔ آغا صاحب کو ایک مسجد کی ضرورت کا احساس تو پہلے ہی تھا اور انہوں نے اسٹوڈیو کے اندر ہی ایک جگہ اس کیلئے مخصوص بھی کردی تھی مگر سلطن راہی سپر اسٹار بن کر ابھرے تو انہوں نے اس سلسلے میں آغا صاحب سے درخواست کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اپنے طور پر اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کردیا۔ اپنے فلمی معاوضوں کا ایک حصہ انہوں نے مسجد کی تعمیراتی کاموں کیلئے وقف کردیا تھا۔ دوسروں نے سنا تو انہوں نے بھی تھوڑی بہت رقم فراہم کرنا شروع کردی۔ آغا صاحب بھی اس منصوبے میں دلچسپی لینے لگے مگر سلطان راہی کو تو جیسے بخار سا چڑھ گیا تھا۔ جب کبھی ایورنیو اسٹوڈیو جاتے، زیرِ تعمیر مسجد میں جا دھمکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد بہت خوبصورت اور آرام دہ بننی چاہئے۔ اس کیلئے خوبصورت ٹائیلز، شیشے اور لکڑی وغیرہ کی فراہمی بھی انہوں نے اپنے ذمے لے لی تھی۔ ان کاموں کیلئے روپیہ درکار تھا اور سلطان راہی اس کیلئے حاضر تھے۔ یہ مسجد مکمل ہوئی اور ایسی خوبصورت مسجد بنی کہ جب تک ایورنیو اسٹوڈیو قائم ہے اس وقت تک یہ مسجد قائم رہے گی اور سلطان راہی کی یاد دلاتی رہے گی۔ انہوں نے شیشے کے رنگین ٹکڑوں سے مسجد کو آراستہ کیا تھا۔ شیشے کی آرائش سلطان راہی کا من پسند کام تھا۔ اپنے گھر کی مسجد میں بھی انہوننے شیشے کے رنگین چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نصب کرائے ہیں۔ ان کا ڈرائنگ روم بھی ایسے ہی شیشوں سے آراستہ ہے۔
ایورنیو اسٹوڈیو کی مسجد کی تعمیر کیلئے سلطان راہی نے دل کھول کر روپیہ دیا۔ ایک بار فلم ساز سے ساٹھ ہزار کی رقم ملی، انہوں نے وہ فوراً مسجد کیلئے دے دی۔ ہم ایک دن آغا گل کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ سلطان راہی بھی وہیں موجود تھے اور کسی فلم ساز کے منتظر تھے۔ فلم ساز نے آکر انہیں دس ہزار روپے کی قسم ادا کی، راہی صاحب یہ نوٹوں کی گڈی لیتے ہی دفتر سے باہر نکل گئے۔ دفتر کے رنگین شیشے میں سے باہر ایک صاحب ٹہلتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
آغا صاحب نے ہم سے کہا ’’آفاقی صاحب جانتے ہو باہر کون کھڑا ہے؟‘‘
ہم نے اس آدمی کو غور سے دیکھا ’’میں انہیں نہیں جانتا‘‘۔
کہنے لگے ’’یہ مسجد کا ٹھیکیدار ہے، راہی باہر جاتے ہی یہ رقم اس کو دے دے گا‘‘۔ اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سلطان راہی اس شخص کے پاس پہنچے، ان دونوں نے آپس میں کچھ باتیں کیں اور سلطان نے کوئی چیز ان کے حوالے کردی۔
ایورنیو اسٹوڈیوز کی مسجد تو انہوں نے بڑے شوق سے خود تعمیر کرائی تھی مگر دوسرے اسٹوڈیوز کی مساجد کیلئے بھی وہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے تھے۔
ایک بار وہ آؤٹ ڈور شوٹنگ کے سلسلے میں مری گئے۔ پہاڑوں میں ایک بلند اور تنہا چوٹی پر ایک چھوٹی سی عمارت کے آثار دیکھے تو انہوں نے پوچھا ’’وہ کیا ہے؟‘‘
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ وہ ایک مسجد ہے۔ خدا جانے کس بادشاہ یا صوبیدار نے بنوائی تھی مگر اب سالہا سال سے ویران ہے۔ سلطان راہی سوچ میں پڑگئے۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 125 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)