فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر455
جب ہم نے فلموں کا ذکر چھیڑ دیا تو فراز صاحب پھر دور کی کوڑی لائے اور کہنے لگے ’’حضرت، آپ تو باتوں باتوں میں فلم کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ یہ تو بے حد مفید اور تحقیقی کام ہے۔ کیوں نہ آپ کو پاکستان کی فلمی صنعت کی تاریخ کا مورخ بنا دیں۔‘‘
ہم نے کہا’’حضرت یہ نہ تو تخلیقی کام ہے اور نہ ہی تاریخ۔ یہ تو ہماری یادوں کا مجموعہ ہے۔ تاریخ کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ تاریخ تو ہمیں یاد ہی نہیں رہتی۔ اسی لیے یہ واقعات کسی ترتیب کے بغیر پیش کیے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے یاد آتے رہتے ہیں ہم لکھتے جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے پان منہ میں رکھا او بولے ’’آپ ذرا اس تجویز پر غور کیجئے۔ اگر اس بہانے پاکستانی فلمی صنعت اور فلمی شخصیات کی ایک تاریخ مرتب ہو جائے تو سوچئے کہ یہ کس قدر مفید کارنامہ ہوگا۔ آنے والے دور میں لوگ ریفرنس کے طور پر اس سے رجوع کیا کریں گے۔‘‘
ہم نے کہا’’بھائی ۔ کہاں کا ریفرنس اور کون سے لوگ۔ یہاں تو فلمی صنعت کا ہی بولو رام ہوگیا ہے۔ پرانی فلموں اور فلم والوں کو لوگ بھول گئے ہیں۔ نئی نسل تو اس بارے میں قطعی لا علم ہے۔ انہیں بھلا ان واقعات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟‘‘
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر454 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مگرفراز صاحب واقعی اسم بامسمیٰ ہیں۔ خدا جانے ان کا نام والدین نے سوچ سمجھ کر اور ستاروں کا حساب کتاب لگا کر رکھا تھا یا غلطی سے پسندیدہ نام رکھ دیا تھا مگر بعد میں دنیا نے انہیں واقعی ’’فراز‘‘ بنا دیا۔ وہ جس چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ انہوں نے باقاعدہ طور پر یہ مہم شروع کر دی اور طرح طرح سے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ ہم اس خود نوشت کو اگر فلم کی تاریخ بنائیں گے تو کیا اجر پائیں گے؟ اللہ سے نہیں، اہل دنیا سے۔ جب انہوں نے بار بار یہی بات کہی اور لکھی توہم نے بھی سوچا کہ کہتے تو ٹھیک ہیں۔ا سی دوران میں کچھ اور لوگوں نے بھی ہم سے کہا کہ آپ تو بہت بڑا کام کر رہے ہیں کہ پاکستان کی فلمی صنعت کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔
ہم بہت حیران ہوئے کہ ان جانے میں ہم ایک بڑا کام کیے جا رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ اگر لوگ اسے فلمی تاریخ سمجھ کر پڑھتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ مختصر ہی سہی مگر ہمیں پاکستان کی فلمی صنعت کی تاریخ (کسی ترتیب کے بغیر ہی سہی) لکھنی چاہئے۔صرف اتنا ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں یقین اور تصدیق نہیں ہے دوسروں یا کتابوں اور رسائل سے یہ معلومات حاصل کر لی جائیں اور فلمی تاریخ کا ایک ہلکا سا خاکہ بن جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ہم نے تاریخ نویسی کے خیال سے قلم اٹھایا تو معاً خیال آیا کہ گئے گزرے واقعات اور لوگوں میں اب لوگوں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ پرانے لوگ اب فلم دیکھنا ہی چھوڑ چکے ہیں ۔ نئی نسل کو پرانے لوگوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے تو پھر اس داستان طولائی کو پڑھے گا کون؟ یہ سوچ کر ہم نے فراز صاحب سے ہر لفظ کے بعد یہ پوچھنا ضروری سمجھا کہ قارئین کا ردعمل کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بلا وجہ کاغذ کالے کر رہے ہیں اور پڑھنے والوں کو بور کر رہے ہیں؟ انہوں نے ہمیں دلاسا دیا کہ ایسی بات نہیں ہے۔ پرانے لوگ اپنی یادیں تازہ کرنے کے لیے اور نئی نسل کے لوگ اس زمانے کے بارے میں جاننے کے لیے داستان پڑھتے ہیں اور اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ ’’سرگزشت‘‘ میں شائع ہونے والے قارئین کے خطوط سے بھی ہمیں کچھ اندازہ ہوا مگر جب ہر طبقے، شعبے اور مزاج کے لوگوں نے فرداً فرداً ہمیں بتایا کہ وہ اس کو واقعی پسند کرتے ہیں تو قدرے ڈھارس بندھی۔
ہمیں لوگ مصنف، فلم ساز، ہدایت کار، صحافی، کالم نگار، سفرنامہ نگار کے نام سے تو جانتے ہی تھے مگر اب فلمی الف لیلہ کے حوالے سے ہمارا ایک نیا حوالہ اور نئی شناخت بن گئی ہے اور ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کیا واقعی اتنے بہت سے صاحب علم وفکر اور دانشور بھی اس کو پڑھتے ہیں اوربور نہیں ہوتے بلکہ جب ملاقات ہوتی ہے تو اسکے بارے میں تبادلہ خیال کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
کچھ خطوط بھی ہمیں گھر کے پتے پر موصول ہوئے پھر ٹیلی فون کالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ ملک سے باہربھی’’الف لیلوی‘‘ لوگ موجود ہیں۔ بعض اوقات وہ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ ہمیں مشورے دیتے ہیں۔ ہم سے فرمائشیں کرتے کہ فلاں کا تذکرہ آپ نے نہیں کیا یا بہت مختصر کیا۔ ہم حیران ہیں کہ اگر واقعی تفصیل سے ہرایک کے بارے میں لکھیں توکیوں کرلکھیں۔ یہ داستان تو شیطان کی آنت کی طرح لامتناہی ہے۔ کب ختم ہوگی اور کیسے ختم ہوگی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم لکھ لکھ کر تھگ گئے ہیں۔ ہم نے ابتدائی زندگی سے ہی مطالے کا آغاز کر دیا تھا۔ وجہ بیان کی جا چکی ہے پھر چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھے جب لکھنے کا آغاز کیا۔ وہ دن اور آج کا دن لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ ابتدائی دس بارہ سالوں میں ہم صرف لکھتے رہے۔ شائع کرانے کی ہمت نہ پڑی۔ نہ ہی معیار کے اعتبار سے اشاعت کی ضرورت سمجھی۔لکھتے رہے اور جمع کرتے رہے پھر انہیں پھاڑ کر پھینک دیتے تھے پھر جب لکھنا اور چھپنا شروع کیا تو شوق میں آکر کسی صلے یا ستائش کی توقع کے بغیر لکھتے رہے ۔ ہزاروں صفحات ہمارے نام کے بغیر شائع ہوئے۔ ہزاروں صفحات پر ہمارا نام شائع ہوا مگر ہم نے ان تحریروں کو سنبھالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ باقاعدہ لکھنے کا آغازکیا تب بھی کسی مطبوعہ تحریر کو سنبھال کر نہ رکھا۔
نتیجہ یہ ہے کہ اب پچھتاتے ہیں کہ گزشتہ پچاس سالوں میں ہم نے بعض ایسی تحریریں بھی لکھی ہیں جو ہمیں احتیاط سے محفوط رکھنی چاہئے تھیں مگر وہ ناپید ہیں۔
اگر حساب لگائیں تو بلا مبالغہ لاکھوں صفحات لکھ چکے ہیں۔ لکھنے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مختلف شعبوں کے لیے لکھتے ہیں۔ فلمی الف لیلہ کہاں تک لکھیں اورکیوں کر لکھیں؟ حافظے کی بھی آخر کوئی حد ہوتی ہے اور لکھنے کی بھی۔ کب تک حافظے کے برتن کو کھنگالتے رہیں اور لسی نکالتے رہیں اور پھر لکھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور دماغ کے ساتھ ہاتھ کو بھی حرکت دینی پڑتی ہے یہ ایک بے حد تھکا دینے والا کام ہے۔
اب چند برسوں سے ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ فلم والے ابھی تک ہم سے بالکل مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ کہانیاں لکھنے کی فرمائش کرتے رہتے ہیں۔ دلکش معاوضوں کی پیشکش بھی کرتے ہیں مگر جیسی فلمیں بن رہی ہیں ان سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا ہے۔ نہ وہ دماغ نہ صلاحیتیں، نہ وہ ماحول، نہ وہ انہماک شوق اور لگن۔ یہ لوگ فلم کیسے بنائیں گے؟ اور کیسی فلم بنائیں گے؟ یہ سوچ کر فلم سے ہم دامن بچاتے رہے ہیں۔
ایک نئی ’’آزمائش‘‘ ٹی وی ڈرامے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ جب سے پاکستان میں ٹی وی کے نجی ڈرامے بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے یہ ایک باقاعدہ صنعت بن چکی ہے۔ ایک اچھے ٹی وی سیریل پر فلم کے مساوی ہی لاگت آتی ہے۔ معیار توجیسا بھی ہے مگر معاوضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بے شمار لوگ ٹی وی ڈراما سیریل بنا رہے ہیں اور بہت دل فریب پیشکش کے بعد تقاضے بھی کرتے ہیں لیکن اس کے لیے بھی وقت اور یکسوئی کی ضرورت ہے ہم سوچتے ہیں کہ کیا ساری زندگی صفحات کالے کرتے ہی گزرجائے گی۔ فرصت کے لمحات بھی ملیں گے یا نہیں؟ مگر دوسری طرف مشکل یہ ہے کہ جس روز ہم کو لکھنا نہیں ہوتا ہم پریشان ہو جاتے ہیں کہ وقت کیسے گزاریں؟
یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آپ کہیں گے کہ صاحب یہ کس قسم کا جملہ معترضہ تھا کہ پوری داستان سنا ڈالی۔ اس تمہید کامقصد کچھ اور تھا۔ پچھلے دنوں ہم نے بھارت اور پاکستان کے کچھ ممتاز فنکاروں کے واقعات بیان کئے ہیں۔ میڈم نور جہاں کے علاوہ ثریا کابھی تذکرہ رہا۔ اب دور دیس سے ایک صاحبہ نے بذریعہ ٹیلی فون(کمپیوٹر، فیکس اور انٹرنیٹ سے ہم محروم ہیں کہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے ) یہ شکایت کی ہے کہ آپ نے ثریا کا تو ذکر کر دیا مگر مینا کماری اور مینا شوری کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔
ہم نے عرض کیا کہ ان دونوں خواتین کا ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں بلکہ مینا کماری پر اس قدر تفصیلی داستان لکھی تھی کہ پڑھنے والے حیران رہ گئے۔
کہنے لگیں’آپ نے میڈم نور جہاں کے بارے میں بھی کئی بار لکھا۔ ثریا خانم کے بارے میں بھی لکھ چکے ہیں۔‘‘
ہم نے کہا’’دراصل بعض نئے حوالوں سے تذکرہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
بولیں’’آپ کے لیے نئے حوالے تلاش کرنے کیا مشکل ہیں۔ بس میں کچھ نہیں جانتی۔ آپ مینا کماری اور مینا شوری کے بارے میں بھی لکھیں اور دیکھیے۔ میں بہت مہنگا ٹیلی فون کر رہی ہیں۔‘‘
اس سے کچھ دیر پہلے ایک پرانے صحافی، فلم بینا اور دانشور ہمارے پاس سے اٹھ کر گئے تھے۔ انہوں نے کتابی مجموعے میں مینا کماری، مدھوبالا، منگیشکر کے بارے میں ساری داستان ایک ہی نشست میں ختم کرڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے مطالعے کے بعد مجھے ان کے بارے میں بہت سی نئی معلومات حاصل ہوئیں جو بہت کوشش اور مسلسل مطالعے کے باوجود مجھے معلوم نہ ہوسکی تھیں۔ آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہو جاتا ہے؟(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر456 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں