شعلوں کو ہوا دینے والی حکومت
وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی سے کہا ہے کہ وہ ایوان میں جارحانہ رویہ اپنائیں، اپوزیشن کے ارکان صرف جھوٹ بولتے ہیں وہ جس لہجے میں بات کریں اسی میں جواب دیا جائے۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی تقریر کے دوران ٹف ٹائم دینے پر تحریک انصاف اور اتحادی ارکان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ملک لوٹنے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نے وزیر دفاع پرویز خٹک اور ایم این اے ثناء اللہ مستی خیل کی یہ تجویز مسترد کر دی کہ اپوزیشن لیڈر کو تقریر مکمل کرنے دی جائے۔ ثناء اللہ مستی خیل نے تجویز دی تھی کہ بجٹ منظور کرانا اور اس پر بحث حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، تاکہ بجٹ منظور کرایا جا سکے، وزیراعظم نے یہ تجویز مسترد کی تو ارکان نے ثناء اللہ مستی خیل کی ہوٹنگ شروع کر دی پرویز خٹک نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کرکے انہیں قائد حزب اختلاف کو تقریر مکمل کرنے کی تجویز دی تھی جو وزیراعظم نے مسترد کر دی۔ وزیراعظم نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ آصف علی زرداری سمیت کسی گرفتار رکن کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کئے جائیں۔ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں بلوچستان نیشنل پارٹی شامل نہیں ہوئی، پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ہم حکومتی اتحاد کا حصہ نہیں رہے۔ ہم نے صرف حکومت کو ووٹ دیا تھا۔
پیر کا دن سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے لئے ایک مشکل دن تھا پہلے تو اپوزیشن پارٹیوں نے آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر ان کے خلاف ایوان میں سخت تقریریں کیں اور پھر ان کے آفس کے باہر پیپلزپارٹی کے ارکان نے دھرنا دے دیا۔ ایک طرف تو سپیکر مخالف جماعتوں کے تابڑ تور حملوں کی زد میں تھے تو دوسری طرف تحریک انصاف کے ارکان، جن میں بعض وزراء بھی شامل تھے ان کی بات نہیں سن رہے تھے۔ یہ وزراء اور ارکان قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی تقریر کے دوران مسلسل مداخلت اور شور و غوغا کر رہے تھے اور سپیکر کی بات کو سننے کے لئے آمادہ نہیں تھے جو انہیں ایسا کرنے سے روک رہے تھے۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث شروع ہی نہیں ہو سکی کیونکہ اس کا آغاز قائد حزب اختلاف کی تقریر سے ہونا ہے اور جونہی وہ خطاب شروع کرتے ہیں۔ سرکاری بنچوں کی مداخلت کے باعث ایسا نہیں کر سکتے اس لئے عملاً بجٹ پیش کرنے کے بعد سے اب تک اسمبلی میں سوائے شور شرابہ کے کوئی بزنس نہیں ہوا، اب یہ تاثر پختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت بجٹ پر بحث چاہتی ہی نہیں ہے اور اس کا یہ خیال ہے کہ بجٹ جوں کا توں منظور ہو جائے وہ اس کے لئے حکمت عملی بھی بنا رہی ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس بات پر تلی ہوئی ہیں کہ بجٹ منظور نہیں ہونے دینا، ان جماعتوں کا خیال ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے اور اس کا پاس ہونا ملکی مفاد میں نہیں، اپوزیشن کو اس میں کامیابی ہوتی ہے یا نہیں یہ تو بجٹ کی منظوری کے وقت ہی پتہ چلے گا لیکن اتنا تو ہوا ہے کہ اپوزیشن حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت بی این پی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کی زبان سے یہ کہلوانے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ ہم حکومتی اتحاد کا حصہ نہیں رہے۔ اس جماعت کے 4ارکان قومی اسمبلی میں ہیں اور اس کے پاس کوئی وزارت نہیں اگر بجٹ کی منظوری میں اس نے حصہ نہ لیا اور چند آزاد ارکان کو بھی ساتھ ملا لیا جو ناممکنات میں سے نہیں تو حکومت کے لئے بجٹ پاس کرانا مشکل ہو جائے گا۔
ایسے اشتعال انگیز مواقع پر عموماً معتدل عناصر جلتی پر پانی ڈالنے کی کوشش کیا کرتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ہنگامہ آرائیاں اور شعلہ بیانیاں اپوزیشن کو ہی زیبا ہیں، حکومت کو ماحول ٹھنڈا رکھنا چاہیے اگر ایوان نہیں چلتا تو اس کا فائدہ بھی (وقتی اور دور رس) اپوزیشن ہی کو پہنچتا ہے لیکن یہاں تو ایسے عجیب مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ سرکاری بنچ ہی کارروائی کو چلنے نہیں دے رہے اور اپنے ہی سپیکر کی پوزیشن کو مضحکہ خیز بنا کر رکھ دیا ہے جن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ ہنگامے کے بعد بے بسی کے انداز میں اجلاس ہی ملتوی کر دیں ایسے میں جب انہیں اگر وزیراعظم کی یہ ”ہدایت“ بھی پہنچے کہ آصف علی زرداری سمیت کسی گرفتار رکن کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کریں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپیکر آخرکس مرض کی دوا ہے یہ درست ہے کہ ان کا تعلق حکمران جماعت سے ہے لیکن منتخب ہونے کے بعد ایوان کو غیر جانبداری سے چلانا ان کی آئینی و قانونی ذمے داری ہے اگر وہ کسی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتے یا ان کے کسی عمل سے لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی بے جا مخالفت یا حکومت کی بے جا حمایت کر رہے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں لیکن یہاں تو پوزیشن یہ ہے کہ وزیراعظم کھلم کھلا پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان کو یہ ہلہ شیری دے رہا ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈر کو تقریر نہ کرنے دیں اور جو ایسا کررہے ہیں ان کو تھپکی بھی مل رہی ہے یہاں تک کہ جو یہ تجویز دے دے کہ قائد حزب اختلاف کو تقریر مکمل کرنے دی جائے اس کی ہوٹنگ کی جاتی ہے وہاں کوئی معتدل آواز کیسے سنی جا سکتی ہے لیکن یہ حالات تو اپوزیشن ہی کو سازگار ہیں اور اس کا نقصان بالآخر حکومت ہی کو ہو گا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت کسی کو اس کا ادراک نہیں اور وزیراعظم نہ صرف اپنے ارکان کو ہلہ گلہ جاری رکھنے کے لئے کہہ رہے ہیں بلکہ سپیکر کو بھی ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ پروڈکشن آرڈر جاری نہ کریں حالانکہ یہ سپیکر کا صوابدیدی اختیار ہے اور وہ اس ضمن میں کسی کی ہدایت کا محتاج نہیں ہے۔ سپیکر کو قواعد و ضوابط کے مطابق احکامات جاری کرنے چاہیں اور اس سلسلے میں کسی کی ناراضی کی پروا کرنا ان کے منصب کی توہین ہو گی اس لئے سپیکر کو تو ہمارا مشورہ یہی ہے کہ وہ جو بھی کرنا چاہتے ہیں قانون اور اسمبلی قواعد کے مطابق کریں اور ایوان چلانے کے لئے اپنا کردار ڈٹ کر ادا کریں اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے اور انہیں اس دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ پروڈکشن آرڈر جاری نہ کریں تو اس سے بہتر ہے وہ شرافت سے استعفا دے دیں ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن ان کے خلاف بھی اس طرح تحریک عدم اعتماد پر غور شروع کر دے جس طرح سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں یہ فیصلہ کن لمحات ہیں ان میں فیصلے بھی دوٹوک ہونے چاہیں، موجودہ حالات میں جب دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی ہے تو اسمبلی کی کارروائی چلتی نظر نہیں آتی کہ جن کی یہ ذمہ داری ہے وہ خود ہی اس کی راہ میں مزاحم ہیں۔حکومت کو جو آگ بجھانی چاہیے اور اس پر پانی ڈالنا چاہیے وہ اسے پھونکیں مار کر مزید بھڑکا رہی ہے۔ کیا پوری حکومت میں مستی خیل کی طرح کوئی رجل رشید نہیں۔جو ہوٹنگ کا خطرہ مول لے کر معقول مشورہ دیتا۔