آمریت کی عدالت میں پہلے جمہوری صدر کی موت
مصر کے سابق صدر محمد مرسی کا عدالت کے کٹہرے میں انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کو المیہ قرار دیا گیا کہ وہ مصری صدر حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہونے پر باقاعدہ منتخب ہوئے تھے اور یوں ایک جمہوری صدر تھے ان کو اخوان المسلمین نے اس وقت اپنا امیدوار بنایا جب اخوان کے اپنے امیدوار کا راستہ روک دیا گیا۔اس دور کی تاریخ میں یہ ایسا انتخاب اور انقلاب مانا گیا جس سے اس قدیم ملک کی تاریخ اور روایت میں تبدیلی کا امکان وابستہ کیا گیالیکن ایک ہی سال کے اندر مصری فوج نے ان کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا ان کی جماعت کو کالعدم قرار دے کر اخوان المسلمین کے کئی راہنما بھی گرفتار کئے گئے۔ اس کے بعدسے فوجی راج دوبارہ شروع ہے جو نہ جانے کب تک جاری رہے، کیونکہ صدر السیسی بھی اپنے پیش روؤں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔صدر محمد مرسی پر اسلامی نظریات کے باعث کئی الزا م عائد کئے گئے، حتیٰ کہ ان کے خلاف جاسوسی کا بھی الزام تھا لیکن بظاہر جرم ان کا یہ تھا کہ وہ اپنے پورے دور میں فلسطین اور فلسطینی قیادت کے حق میں کلمہ خیر کہتے رہے جو مصر کے اندر اور باہر گوارا نہیں تھا فوجی حکومت نے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا کہ انہوں نے اسلام پسندوں کو کھلی چھٹی دی۔ اس الزام میں ان کو سزائے موت سنائی گئی، لیکن مرسی کی اعلیٰ عدالت میں شنوائی ہوئی اور مقدمہ کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا گیا۔ خبروں کے مطابق عدالت میں مقدمہ کی سماعت تھی اور مرحوم کٹہرے میں موجود تھے۔ سماعت کے دوران ہی وہ گر گئے اور بے ہوش ہو گئے ان کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ وہ راستے میں ہی جاں بحق ہو گئے۔مرحوم نے انتخاب میں کامیابی کے بعد ہی اعلان کیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کے امیدوار ضرور تھے لیکن اب وہ پورے مصر کے صدر ہیں، لیکن ان کی یہ خوبی بھی انہیں معزولی سے نہ بچا سکی اور فوج ہی کے ہاتھوں معزول ہوئے اور اب اللہ کو ہی پیارے ہو گئے ہیں۔مرسی کی وفات کو پوری دنیا میں دکھ اور افسوس کے ساتھ سنا گیا اور ان کی خدمات اور نظریات کو خراج پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر تھے وہ دنیا سے چلے گئے، اب ان کی یاد رہ گئی۔ اللہ مغرفت فرمائے۔ یہ دنیا اور اس کا چلن ہے۔