کلو آٹا، سات بھوکے، روبینہ بروہی مر گئی
"اے بھائی! یہ بات دوبارہ کہی تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔" میرے پیارے اور ایک طویل عرصے تک کے رفیق کار جناب جہاندار صاحب سابق سیشن جج کہتے ہیں کہ ریڑھی کے آگے کھڑا یہ سنتے ہی میں پھل خریدنا بھول کر لرزنے لگا۔ جہاندار صاحب ڈی ایچ اے میں گیگا مال کے پاس رہتے ہیں۔ روزمرہ ضرورت کی چیزیں وہیں سے خریدتے ہیں لیکن سبزیاں پھل خریدنے کے لئے وہ، میری طرح، کسی غریب ریڑھی والے کے پاس چلے جاتے ہیں۔ بھاؤ تاؤ بالکل نہیں کرتے کہ اس غریب کی یہی مدد ہے۔ شہروں کی بندش ہوئی تو انہیں پھلوں سبزیوں کے لئے ذرا دور روات جانا پڑا۔ انہوں نے ریڑھی بان سے روا روی میں کہیں کہہ دیا: "یار تم نے ماسک نہیں لیا ہوا؟ کیا تمہیں پتا نہیں کرو نا پھیلا ہوا ہے جو مہلک وبا ہے"؟ وہ پھٹ پڑا۔" اے بھائی! کرونے سے پہلے کاک پل کے پاس ریڑھی لگا کر میں کچھ کما لیتا تھا۔ پولیس نے سب کو ہٹا دیا۔ آج پندرہ دن بعد گھر میں کھانے کو زہر بھی نہیں تھا تو بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر دور روات میں یہ طے کر کے ریڑھی لگانے آیا کہ آج کوئی پولیس والا مجھے روکنے آیا،تو وہ چھری دیکھ رہے ہو ناں،
وہ اس کے پیٹ میں اتار کر خود پھانسی چڑھ جاؤں گا۔ بھائی صاحب! اس کرونے کے مہلک ہونے کا ہم سے زیادہ کسے پتا ہوگا؟ یہ لو اپنے پھل اور چھپ جاؤ جا کر اپنا گھر میں۔ تمہیں کیا معلوم بھوک کیا ہوتی ہے۔"میرپور خاص کے قریب ایک چھوٹے قصبے جھڈو کے رہائشی اللہ بخش بروہی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کی حاملہ بیوی بھوک سے ہلاک ہوئی ہیں۔ وہ لکڑی سے بچوں کے کھلونے بناتے ہیں لیکن کرو نا آنے پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا کام بند ہو گیا۔ پانچ بچوں کے باپ کا کہنا تھا" ایک ہفتے سے کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ میرے پاس بکری، بھیڑ تو کیا ایک مرغی تک نہیں تھی جو فروخت کرتا۔ جو پیسے تھے وہ لاک ڈاؤن میں ختم ہوگئے۔ روزانہ 30، 40 روپے کا آٹا خریدتے اور روکھی روٹی پانی سے کھا لیتے تھے۔ سب کے حصے میں دو وقت کی بمشکل دو روٹیاں آتیں۔ بچے بھوک کی شکایت زیادہ کرتے تو روبینہ کبھی آدھی روٹی کھا لیتی تو کبھی خالی پیٹ سو جاتی۔ کچھ نہیں بچا تو آخری 15 روپے کے بسکٹ منگا کر سب نے کھائے۔ رات 10 بجے روبینہ مرگئی (بی بی سی اردو 22 اپریل 2020)۔
افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ بی بی سی اردو کا اپنا کالم نگار بی بی سی اردو پڑھنا گوارا نہیں کرتا۔ موصوف لکھتے ہیں:" تادم تحریر (روبینہ کی موت کے دو ماہ بعد) لگ بھگ تین ہزار(غیر ضروری مبالغہ، اصل اموات 2632ہیں)اموات ہو چکی ہیں لیکن بھک مری کے سبب ایک بھی رجسٹرڈ موت سامنے نہیں آ سکی."(بات سے بات, بی بی سی اردو 14 جون 2020) معزز کالم نگار چاہیں تو روبینہ کی موت کا رجسٹریشن نمبر وہاں کے اسسٹنٹ کمشنر آصف خاص خیلی سے لے سکتے ہیں جو کہتے ہیں: "حکومت کی راشن کی تقسیم محدود ہے, میرے پاس سارا دن غریب لوگ آتے ہیں " جنگ کے ایک معزز کالم نگار اور اینکر پرسن کے افکار ملاحظہ ہوں:" ہماری اقدار کی وجہ سے بھوک سے کوئی مرا ہے, نہ مرے گا۔ جان ہے تو جہان ہے۔" (لاک ڈاؤن یا تباہی, 13 جون) مزیدملاحظہ ہو: لوگ حادثات سے مرتے ہیں,علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرتے ہیں, ڈپریشن اور نشہ کرنے کی وجہ سے مرتے ہیں لیکن مطلق بھوک کی وجہ سے کوئی کسی کو مرنے نہیں دیتا(کرونا چند تجاویز) جنگ ہی کے ایک اور معزز کالم نگار کے ملفوظات ملاحظہ ہوں:"پچھلے دو تین ماہ میں مجھے اپنے ارد گرد کوئی غریب بھوک سے مرتے دکھائی نہیں دیا (جنگ 8 جون 2020).
یہ سب معزز کالم نگار یقیناً اخلاص سے لکھ رہے ہیں. رائے عامہ کی تشکیل میں ان کا کردار بڑا اہم ہے.ان سب کی تحریریں سامنے رکھ کر کوئی محقق نتیجہ نکالنا چاہے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ ان معززین کا میدان عمل کوچہ سیاست اور باشندگان راہداری اقتدار کی رپورٹنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ معززین گلیوں کوچوں میں بے شک نہ آئیں کہ کرونا کا خطرہ ہے۔ صرف اپنے ہی کسی عام اخباری کارکن کا طرز زندگی ذرا احتیاط سے پڑھ سن لیں یا کبھی کبھی اخبارات میں مقامی خبریں پڑھ لیا کریں۔ یوں انہیں وہ کارپوریٹ کلچر اور اعلی سرکاری حکام اور سیاستدان بھول جائیں گے جن کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ لوگ مکمل ملکی بندش کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ بھوک کی بھی خوب رہی۔ بے روزگار مزدور،چھانٹی کی زد میں آئے ملازمین،بند بازاروں کو حسرت سے تکتے موچی، ریڑھی بان، بند ڈھابوں کے باہر بیٹھے اداس بیرے، ہوٹلوں، ریستورانوں اور کمپنیوں کے بیروزگار افسردہ چوکیدار، یہ سب لوگ جس کسمپرسی، بیچارگی، بھوک کے ساتھ زندہ لاش کی طرح آج زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں، یہ اوپر جتنے کالم نگاروں سے میں اختلاف کر رہا ہوں، ان میں سے ایک کی تو آزادی صحافت کے لیے بے پناہ قربانیاں ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔ لیکن یہ صاحب تب تک ہی صحافی تھے جب وہ بوسنیا میں آتش و آہن کی بارش میں اعتماد کی چھتری لئے خبریں جمع کیا کرتے تھے۔ کبھی عراق اور شام میں جان ہتھیلی پر رکھ کر سچا صحافی ہونے کا ثبوت دیا کرتے تھے۔ سچ پوچھیں تو آج یہ کوچہ اقتدار اور میدان سیاست میں رہ کر زندانی تاثیر الفت ہائے خوباں نہیں تو اور کیا ہیں؟ ماضی کی پینشن تا حیات ملتی رہتی ہے۔ قبلہ گاہی! آپ سب لوگ خط افلاس سے نیچے غربت کی گھاٹیوں میں مقیم پانچ کروڑ سسکتے اور نیم جان لاشوں اور لگ بھگ بارہ کروڑ سفید پوش شرفاء کو چھوڑ کر دو تین فیصد اشرافیہ کی نمائندگی کر رہے ہیں، باوجود اس کے کہ آپ اشرافیہ میں سے پھر بھی نہیں ہیں۔
ذرا ملکی صورت حال پر ایک اچٹتی سی نظر! حکمران گھروں میں بند, اکثر عدالتیں بند، معالجین، طبی عملے اور پولیس کو چھوڑ کر بیشترسرکاری ملازم کرونے کے خوف سے گھروں میں یوں گھسے بیٹھے ہیں جیسے خواتین باورچی خانے میں چوہا دیکھ کر خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیتی ہیں۔ بلا شبہ پولیس، طبی عملہ اور بعض دیگر ملازمین کام پر موجود ہیں لیکن اکثر اعلیٰ حکام گھروں میں مقید وہیں فائلیں منگوا کر دیکھتے ہیں۔ عوام ٹیکس پورا دے رہے ہیں۔ اپنی ہر ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ بدلے میں انہیں ملتا کیا ہے؟ ہسپتال جائیں تو بند، تھانے جائیں تو وہ بند، عدالتیں بند، بچوں کو پڑھنے بھیجیں تو اسکول، کالج، جامعات سب بند۔ پہلے بجلی کی کمی کے نام پر دو چھٹیاں کی گئیں۔ آج چھٹیاں ہی چھٹیاں۔ تنخواہیں اور مراعات ویسے ہی جاری ہیں لیکن کام کرونے کی نذر ہوگیا۔تو پھر ٹیکس اور محصولات وصول کرنے کا جواز کیا ہے؟ یہ وبال کرونے سے بڑھ کر نہیں تو اور کیا ہے؟
اسی پر بس نہیں، عشرت کدوں اور بروج مشیدہ میں چھپے حکام، صحافی اور خوف اور دہشت سے لرزہ براندام یہ لوگ مخلوق خدا پر رزق کے محض بند دروازوں کو بھی مقفل کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان سب لوگوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ لوگ دو میں سے ایک راستہ اختیار کر کے مخلوق خدا کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ اول یہ کہ ہمارے ٹیکسوں سے حاصل تنخواہیں اور مراعات وغیرہ سے دستبردار ہوکر مکمل بندش کا مطالبہ کریں اور پورے ملک کو بے شک بند کرادیں۔ اس صورت میں عوام سے ٹیکس کا مطالبہ بلا جواز ہوگا۔ عوام ٹیکس کیوں دیتے ہیں؟ اسی لیے ناں کے بدلے میں انہیں خدمات حاصل ہوں گی۔اسپتال بند، کالج بند، تھانہ بند، کچہری بند،تو ٹیکس کا جواز آخر کیا ہے؟ پھر کھیت سے اناج پیدا نہیں ہوگا۔موجودہ اناج شہروں تک نہیں آئے گا۔ سبزیاں پھل وغیرہ لانے کے لئے پھر سلیمان علیہ السلام کے جنوں کا انتظار کیجئے گا۔ آپ دوسری صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں کہ موت کے خوف سے لرزاں آپ لوگ پلیز خود ہی اپنے گھروں میں مقید ہو جائیں۔ ہم لوگ ٹیکس دیتے رہیں گے۔ آپ تنخواہیں اور مراعات وغیرہ لیتے رہیں اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔ ہم پر رزق کے دروازے تو بند نہ کریں۔ جب کرونا ختم ہوجائے تو آپ شاہی جھروکے سے اپنے درشن کروا دیجیے گا۔ خدا حافظ۔
روشنی کی کرن اسی ایک ٹوٹی پھوٹی، لولی لنگڑی اور دست و پا بجولاں سول حکومت کا وجود ہے۔ 22 کروڑ عوام کے سینہ تانے بغیر نقاب کے نمائندے کی مرجھائے ہوئے دو نقاب زدہ چہروں کے ساتھ خاموش تصویر بہت کچھ کہہ چکی ہے۔ 22 کروڑ عوام کا نمائندہ الیکٹڈ ہو یا سلیکٹڈ، غنیمت ہوا کرتا ہے۔ مارچ کی کسی تاریخ میں دن کو وہ پنجاب میں بندش کی تردید کرتا ہے۔ شام کی خبروں سے اسے پتا چلتا ہے کہ پنجاب تو بند ہوچکا ہے۔ یہ اسلوب حکمرانی جونیجو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور ظفراللہ جمالی سب پر ناکام ہوچکا ہے۔ کیا آپ دیکھ سن نہیں رہے کہ آج کل ذرائع ابلاغ کا بدلا بدلا سا لب و لہجہ ہم عوام کے اس نمائندے کے خلاف ویسا ہی ہے جیسا نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف ہوا کرتا تھا؟ دعا کریں جنگ نہ ہو کہ مولوی فرید کی روح تو الشمس بنانے سے رہی. رہی جماعت اسلامی کی البدر تو ان لوگوں کے کندھے مقبوضہ کشمیر میں شہداء کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں۔ کب تک یہ بھو لے لوگ "دوسروں " کا کفارہ ادا کرتے رہیں گے؟
آج کل سماجی رابطے پر دفاعی، تعلیمی اور صحت کے بجٹ پر نہایت نامعقول تبصرے پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ میں نے پچھلے سال بھی دفاعی بجٹ منجمد کیے جانے کے خلاف لکھا تھا۔ دفاع پر ہم کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ ہمارا دشمن، مملکت ہندوستان سے زیادہ وہاں کا کمینہ برہمن زادہ ہے۔ چنانچہ جرنیلوں کی آئین شکنی اور سول حکومتوں سے ان کے غیر آئینی مطالبات ایک شے ہے اور ملکی دفاع الگ اور دوسرا موضوع ہے۔ دفاعی بجٹ میں اس معمولی اضافے پر تنقید کرنے والوں سے گزارش ہے کہ ان دونوں موضوعات میں فرق روا رکھا کریں۔ میں خود پنشنر ہوں، پینشن پر میرا گزارا ہے جس میں اس سال اضافہ نہیں ہوا۔کوئی بات نہیں، کبھی ہو جائے گا۔ دفاع کے نام پر میری پنشن میں کبھی کسی وقت کمی کا سوال بھی اٹھا تو سب سے پہلا مثبت جواب میرا ہی ہوگا۔تاہم دفاع کے نام پر کسی نے آئین شکنی کی تو:
عشقِ و آزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق میری زندگی، آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
مشکل الفاظ کے لئے معافی:پیارے بچو! یہاں عشق سے مراد وہ والا عشق نہیں بلکہ اس سے مراد دفاع اور آزادی سے مراد دستور پاکستان 1973 ہے.