امریکی سفیر احتیاط کریں
پاکستان کی موجودہ صورت حال اب نئی حکومت کے چناﺅ کی جانب چل نکلی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اس وقت ایک عام ووٹر کے سامنے اِس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہی ہے کہ ہم نے پرویز مشرف دور کے آزاد کئے گئے میڈیا کو مزید آزاد کیا ہے ، اسی طرح پرویز مشرف دور کے قیدی ہو جانے والے چیف جسٹس کو بحال کر کے عدلیہ کی آزادی کا بھی تاریخی سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔ یہ دونوں امور خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کے مترادف ہیں، اس لئے کہ نہ تو میڈیا سے زیادہ کوئی محتسب ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے زیادہ کوئی آپ سے کام کرنے اور حکومت کرنے کا حساب کتاب لے سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ اس دور میں پی پی پی کے وزراءبرطرف بھی ہوئے، قید بھی ہوئے (احمد سعید کاظمی) بہت سے سکیل22میں کام کرنے والے وفاقی سیکرٹری چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، یعنی سپریم کورٹ کے احکام پر فوری طور پر تبدیل ہوئے اور گھر بھی بھیج دیئے گئے۔ یہاں تک کہ ایک وزیراعظم(سید یوسف رضا گیلانی) کو بھی اس عہدے سے الگ ہونا پڑا۔
ظاہر ہے کہ اب یہ ساری کی ساری پانچ سال کی ”خبریں“ پیپلزپارٹی کی الیکشن مہم میں کام آئیں گی اور جعلی ہی نہیں، بلکہ اصلی ڈگری رکھنے والے اُن کے آنے والے امیدواروں کے انتخابی جلسوں میں تقریروں کا واحد موضوع بنیں گی، کیونکہ عوام اس گورکھ دھندے میں کبھی نہیں جائیں گے کہ پیداوار میں اتنے فیصد اضافہ ہوا۔ افراط زر میں اتنے فیصد کمی ہوئی یا حصص کے نرخوں اور زرمبادلہ کے ذخائر کا کیا ہوا۔ ہمارے 80فیصد ان پڑھ ووٹر تو صرف دو+دو= پانچ روٹیوں کے فلسفے اور حساب کتاب پر ہی یقین رکھتے ہیں، کیونکہ بھوکے شہریوں کے لئے یہی درست ہے۔ پارٹی میڈیا اور عدلیہ دونوں کی عدالت میں مسلسل پانچ سال سولی پر ہی ٹنگی رہی، بلکہ ”پل صراط“ پر ہی رہی۔ اگر اس زمانے میں پیسہ کمانے کے اعتبار سے کوئی بدنامی ہوئی ، وہ تو یہ پارٹی 1988ئ،1990ئ،1993ئ،1997ءکے الیکشنوں میں پوری شدومد سے اپنے مخالف کیمپوں سے سنتی چلی آ رہی ہے اور آج بھی اگر2013ءکے الیکشنوں میں کوئی ایسی آواز آئے گی تو اسے نئی نہیں لگنی چاہئے۔
اندازہ ہے کہ اس بار پولنگ سٹیشنوں پر جانے والے وووٹرز2008ءسے تھوڑا سا مختلف ہوں گے۔ ایک تو18سال والے ووٹروں کی تعداد زیادہ ہوگی۔کیونکہ میڈیا کی سیاسی آبیاری نے انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس روز محض پتنگ نہ اُڑائیں، بلکہ ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں اپنا صحیح اور ضروری کردار ادا کریں اور ووٹ دینے ضرور جائیں۔ دوسرے عام شہری بھی، جو کسی بھی وجہ سے یہ خیال کرتے ہیں کہ مزید اصلاحات ضروری ہیں اور نئی آنے والی حکومت ایسی ہو جوانہیں اور ملک و قوم کو پیپلزپارٹی سے زیادہ فوائد دے سکے، تو وہ لوگ بھی اب پولنگ سٹیشنوں پر جائیں گے، جو الیکشن، ووٹنگ اور اس سارے سسٹم کو گالیاں دیتے تھے۔ اس طرح خیال ہے کہ اس بار ”ٹرن اوور“ پہلے، خصوصاً 2008ءکی نسبت بڑھ جائے گا اور ووٹ کی تقسیم کے باوجود جیتنے والے امیدوار ایک لاکھ سے زیادہ ہی ووٹ حاصل کریں گے۔
اس سارے معاملے کو الگ کر کے اب مَیں آتا ہوں، امریکی سفیر کے روزانہ میڈیا بیانات اور اُن کی روزانہ کوریج کی طرف۔ وہ تو خدانخواستہ امریکی حکومت کے ملازم نہیں، بلکہ یہاں پر کسی ایک پاکستانی سیاسی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں کسی بھی سیاسی کارکن، لیڈر، سربراہ یا جماعت کے لوگوں سے ملنا ہو، اس کے لئے ورنہ تو قانون اور اصولوں کے مطابق وزارت خارجہ پاکستان سے اجازت لیتے ہیں، نہ ہی انہیں اطلاع دیتے ہیں، حالانکہ یہ جنیوا کنونشن اور خود سفارتی قوانین کے منافی ہے۔ یہ اجازت اور اطلاع محض اس لئے رکھی گئی ہے کہ ایک طرف تو یہ سفیر جس ملک میں رہ رہے ہیں، وہ اُن کی خود مختار حیثیت کو اعلیٰ اور ارفع تسلیم کریں۔ دوسرے یہ سب کچھ اُن کی اپنی سیکیورٹی کے لئے بھی ضروری ہے کہ جہاں ایک امریکی کو قتل کرنے کے لئے کل کلاں 10لاکھ ڈالر کی ہی معمولی رقم مقرر کر دی جائے اور کوئی تنظیم اس کے کروڑوں پمفلٹ معاشرے میں تقسیم کر دے، تو وہاں پورے ملک میں ایسے لوگوں کی حکومت حفاظت کیسے کر سکے گی؟
اب اگر سفیر صاحب بتائے بغیر کسی خانہ بدوش بستی میں جا کر یا کسی ”فارم ہاﺅس“ میں جا کر بڑے آرام سے قتل کر دیئے جاتے ہیں تو اس میں سب سے زیادہ نقصان کس کا ہو گا؟ قتل کرنے والا تو اپنا انعام کسی نہ کسی دہشت گرد تنظیم سے وصول کرلے گا۔ مقتول کے خاندان کو اس کی حکومت امدا دے گی، لیکن بدنامی تو حکومت کی ہو گی اور اگر یہاں ایسا ہوا تو مملکت پاکستان کی ہو گی۔ ہم تو پہلے ہی ایک بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں ، اب ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنی راہیں صحیح کر لیں ، لہٰذا ایسے میں سفیر محترم رچرڈ اولسن سے یہی درخواست ہے کہ وہ خود کو محدود رکھیں، ہو سکے تو چھٹی لیں اور بہار کے موسم میں جزیرہ ”بالی“ جائیں اور بچوں کو بھی وقت دیں۔
پاکستان کی اندرونی سیاست سے دُور رہیں ، کیونکہ یہ اُن کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ہے۔ اب میڈیا نے پاکستانیوں کو بھی بخوبی آگاہ کر دیا ہے کہ امریکہ خود اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ وہاں لاکھوں امریکی بے روزگار ہیں، لہٰذا کم پاکستانی ہی اب وہاں جانے کے خواہش مند ہیں۔ وہ اب اگر مسلسل اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہے تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا جائے، جس کا مطلب وہ جانتے ہیں کہ انہیں مہلت اب ہفتہ کی نہیں، بلکہ24گھنٹوں کی ہی ملے گی۔اُدھر پاکستانی سفیر متعین واشنگٹن نے بھی پاکستانی سوسائٹی سے وہاں ملاقاتیں شروع کر دی ہیں اور انہیں بتا دیا ہے کہ وہ اب اپنے رشتہ داروں، بچوں اور دوستوں کو امریکہ نہ بلائیں کہ اب ہمارے تعلقات امریکہ سے محض ”امریکی“ ہی ہوں گے، یعنی اِس ہاتھ دو اُس ہاتھ لو۔ برابر۔برابر۔ (جیسے کہ پرانے زمانے میں ہم طالب علم ہوسٹل سے فلم دیکھنے جاتے تھے ، تو سب اپنے اپنے پیسے ٹکٹوں کے بھی اور کھانے، ٹرانسپورٹ کے بھی برابر برابر جمع کرتے تھے)۔ ٭