ہم بھول گئے ،غیر مسلموں نے اہم اسلامی شعائر اپنا لئے : بیرسٹر ملک امجد
مانچسٹر (مرزا نعیم الرحمان ) مغربی ممالک کے علاوہ برطانیہ میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود اکثریت میں نظر آتے ہیں ‘ اقلیتی مسلمان اکثریتی افراد پر اپنے فیصلے ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں ان ممالک نے نہ صرف مسلمانوںکے علاوہ دیگر قوموں پر اپنے دروازے کھولے بلکہ انہیں برابر کا شہری قر ار دیکر انہیں اپنے ملک کی شہریت بھی دی ۔ان خیالات کا اظہارپاکستانی نژاد برطانوی بیرسٹر ملک امجد نے’ پاکستان‘ کو ایک انٹرویو میں کیا اور کہا کہ ہمیں اپنی عملی زندگی میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو اپنا چاہیے اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ مسلمان ایک امن پسند قوم ہے ‘ سچائی ‘ایمانداری ‘ اور قربانی کا جذبہ انکا طرہ امتیاز ہے ‘ مگر حالات اس سے کہیں مختلف ہیں ،مسلمان ایک دوسرے کیخلاف سرد جنگ میں مصرو ف ہیں ‘ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے، وقتی مفادات کیلئے جھوٹ بول کر ایمان کا سودا کرتے ہیں ‘ اور پھر تنقید ان انگریزوں پر کرتے ہیں جو سچ بولتے ہیں اور سوائے کلمہ پڑھنے کے ہر وہ کام کرتے ہیں جو مسلمانوں کے شعار میں شامل ہے ‘ ان ممالک میں کوئی بھوکا نہیں ہوتا ‘ کوئی بے روزگارہو تو اسے بے روزگاری الاﺅنس دیا جاتا ہے بھوکے کو روٹی اور ننگے کو کپڑا دیا جاتا ہے انگریز کلب میں بیٹھ کر شراب پیتا ہے تو تو بعض مسلمان ہاتھوں میں شراب کی بوتل پکڑے سڑک پر جھوم رہا ہے۔ انگریز دنیا میں بھوکے انسانوں کیلئے اپنی جمع پونجی خیراتی اداروں کو دے دیتے ہیں تو بعض مسلمان چیئرٹی کے نام پر فنڈز اکٹھے کر کے ہضم کر لیتے ہیں حتیٰ کہ صدقات و خیرات بھی ان پر حلال ہو جاتے ہیں ان حالات میں ہمیں اکثریت پر اپنے فیصلے تھوپنے کا کوئی حق نہیں، اگر واقعی ہم نے اسلام کے فروغ کے لیے کام کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔برطانیہ میں ہزاروں مساجد ہیں ان مساجد کو مدینہ کی مسجد بنانا ہو گا ‘ ایک ایسی مدنی مسجد جہاں اگر کوئی بھوکا مسلمان چلا جائے تو امام مسجد اسکی روٹی کپڑے حتی کہ رہائش کا انتظام کرے اگر بے روزگار ہے تو مسجد کے نمازیوں سے اپیل کی جائے کہ اس بے سہارا شخص کو روزگار دیا جائے ‘ مسلمانوں کے تمام مسائل برطانیہ کی مساجد میں حل ہونے چاہیں، مساجد کو مدینے کی مسجدوں کیے بغیر مسلمانوں کا تشخص کبھی مثالی نہیں ہو سکتا ‘ مساجد جہاں اللہ کے حضور سجدے اور عبادت کی جگہ ہے وہاں یہ دکھی انسانیت کی خدمت کرنیکا مقام بھی ہے پانچ دس منٹ اللہ اللہ کر کے کسی کا حال چال پوچھے بغیر اپنی راہ لینے والے خود اسلام کے اصل مفہوم سے عاری ہیں انہوں نے کہا کہ حال میں برطانوی پارلیمنٹ نے ہم جنس پرستوں سے شادی کو قانون شکل دی ہے اس بل کی حمایت میں ان مسلمان ممبران پارلیمنٹ نے ووٹ دیے جنہیں عوام نے منتخب کر کے اپنی نمائندگی کا حق دیا ہے ‘ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انگریزوں کی اکثریت نے انہیں ووٹ دیے ان مسلمان پارلیمنٹرین کیخلاف مختلف اقسام کے فتوے جاری کرنے سے قبل اسکا بھی خیال رکھا جائے کہ انہیں مقامی افراد نے پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کیلئے بھیجا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اس کے حق میں ووٹ ڈالتے ہوئے اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے ہوں مگر عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے جو عمل کیا وہ انکا فریضہ تھا ۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں لاکھوں افراد بے مذہب ہیں وہ کسی بھی مذہب کی طرف راغب نہیں ‘ اگر مسلمانوں کو ان مغربی ممالک میں اسلام نافذ اور انگریزوں کو مسلمان بنانے کا شوق ہے تو پہلے اپنے کردار کو اس قابل بنائیں کہ گورے بھی ہماری ایماندای ‘ سچائی اور شرافت کا اعتراف کریں اور پھر مسلمانوں جیسا بننا پسند کریں تو وہ دعوے سے کہتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اسلام سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ بڑے شرم کی بات ہے کہ مغربی ممالک اور برطانیہ میں بعض مسلمان ایسی حرکات کرتے ہیں کہ جن سے سر شرم سے جھک جاتا ہے یورپی ممالک کا پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے بیٹی کو بیوی ‘ اور بیوی کو بیٹی بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا بے روزگاری فنڈز حاصل کرنے کیلئے حلفا اقرار کیا جاتا ہے کہ وہ بے روزگار ہیں جبکہ دوسرے ٹاﺅن میں انکی بڑی بڑی دوکانیں اور کاروبارہوتے ہیں اپنی اولا دجو بے راہ روی کا شکار ہو کو سدھارنے کی بجائے غیرو ں کو تبلیغ کی جاتی ہے قول وفعل کے اس تضاد نہیں مسلمانوں کو بے چین اور مضطرب کر رکھا ہے حقیقی سکون ‘ قناعت اور اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی ملتا ہے ‘ اب انگریز نشے سے دور بھاگ رہا ہے کیونکہ نشے نے انگریزوں کی عملی زندگی کے علاقہ صحت کو بھی متاثر کیا ہے نشہ اسلام میں حرام ہے تو نوجوان مسلم نسل اس نشے کی عادی ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی پناہ کیے لیے اپنے ہی ملک پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، یورپی ممالک کی شہریت حاصل کرنے کیلئے قادیانی ہونے کا دعوی کر دیتا ہے کہ اسکی زندگی پاکستان میں محفوظ نہیں ‘ مسلمان اسے مار دیں گے ‘ یہ نبی ﷺ سے کیسا عشق ہے جو عارضی زندگی ‘ عارضی دنیا کے آرام و آسائش کیلئے اسے گستاخ رسول بننے پر مجبور کر رہی ہے ہمیں اپنی زندگی سے کھلا تضاد ختم کرنا ہوگا ‘ کوئی جانور بھوک سے نہیں مرتا تو اشرف المخلوقات کو خدا کیسے رزق نہیں دیگا ‘ جسکا ذمہ اس نے خود اٹھا رکھا ہے انسان نے صرف دو وقت کی روٹی کھانا ہے مگر وہ پوری دنیا کا رزق اکٹھا کرنے کیلئے اپنی بھر پور توانائیاں صرف کر رہا ہے رنگ برنگے پاسپورٹ آخر میں بخشش کا ذریعہ نہیں بنیں گے بلکہ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہو کر بخشش کی امید کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس امر کی نفی کی کہ مغربی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے دراصل مسلمان اپنے اصل راستے سے ہٹ کر خود تنزلی کا سکار ہو چکے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ اغیار کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا گیا ہے پاﺅنڈ اور ڈالر کی خواہش نے پسماندہ مسلمان ممالک کے لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندی دی ہے ‘ یہ حالات اس وقت تبدیل ہونگے جب اسلامی ممالک سمیت مغربی ممالک کی مساجد کو مدینے کی مسجد میں تبدیل کر دیا جائے انہوں نے کہا کہ خداوند کریم پاکستان کے عوام کو حالیہ انتخابات میں درست اور مخلص قیادت سامنے لانے کی توفیق دے تو سبز رنگ کے پاسپورٹ کو دنیا بھر میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جائے گا ‘ یہ وہی پاسپورٹ ہو گا جس پر دنیا بھر میں انٹری ہو گی ”ویسے بھی گھر کی آدھی اچھی ‘ باہر کی پوری مندی “انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور یورپی ممالک میں آباد تارکین وطن پاکستان کی پکار پر اپنا سب کچھ قربان کرنے اور ان ممالک کی شہریت کو بھی خیر آباد کہنے کیلئے تیار ہیں کاش پاکستانی سیاستدان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ان جذبات کو سمجھ سکیں ۔