پاک بھارت تعلقات میں بہتری کیساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا ،بھارتی ہائی کمشنر

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کیساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                        لاہور(کامرس رپورٹر)پاکستان میں متعین بھارتی ہائی کمیشنرٹی سی ایچ راگھوان نے کہا ہے کہ پانی کا مسئلہ ایسا نہیں جو آج ہی حل ہو جائے ۔دونوں ملکوں کے واٹر کمیشن سال میں تین یا چار مرتبہ ملاقات کرتے ہیں اس مرتبہ واٹر کمیشن کی ملاقات دہلی میں ہو گی جس میں پانی کا مسئلہ زیر بحث آئے گا لیکن تعلقات میں بہتری آنے سے وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔یہ بات انہوں نے منگل کو وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت لاہور کے زونل دفتر میں صنعت کاروں اور تاجروں کے اجلاس سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔اجلاس کی صدارت ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر اور زونل چیئرمین ایس ایم نصیر نے کی۔اجلاس سے سارک چیمبر کے نائب صدر افتخار علی ملک،لاہور چیمبر کے نائب صدر کاشف انور شیخ،سابق نائب صدر ایل سی سی آئی آفتاب احمد ووہرہ،سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی محمود احمد،سابق زونل چیئرمین اظہر سعید بٹ اورجمیل محبوب مگوںسمیت دیگر صنعت کاروں اور تاجروں نے بھی خطاب کیا۔بھارتی ہائی کمیشن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت پاکستان کو 500میگاواٹ بجلی کی فراہمی کیلئے تیار ۔دونوں ملکوں کی ٹیکنیکل ٹیمیں جلد رپورٹ پیش کریں گی جس کی روشنی میں پاکستان کو بجلی سپلائی کی جائے گی۔جہاں تک بھارت میں ہونے والے آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت کی بات ہے تو یہ دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈ کا مسئلہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ حل کر لیں گے ۔بنگلہ دیش میں ایشیاءکپ میں ساری دنیا نے پاک بھارت میچ دیکھا اور اب پھر ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پھر لوگ پاک بھارت میچ سے لطف اندوز ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح پاکستان میں بھارتی فنکاروں کی پذیرائی کی جاتی ہے اسی طرح بھارت میں بھی پاکستانی فنکاروں کو بھرپور عزت دی جاتی ہے جس کی واضح مثال پاکستانی گلوکار اور اداکار علی ظفر کی ہے۔قبل ازیں بھارتی ہائی کمیشن نے صنعت کاروں اور تاجروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔دونوں ملک تجارت بڑھانے کیلئے سنجیدہ ہیں ۔دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور جب آزادانہ تجارت شروع ہو جائے گی تو تعلقات مزید بہتر ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پہلے کی نسبت پاکستانی کاروباری افراد کو بھارت کے ویزوں میں آسانی فراہم کی گئی ہے۔تجارت بڑھانے کیلئے دونوں ملکوں میں نمائشوں کا انعقاد اور وفود کے تبادلے ضروری ہیں۔لاہور میں میڈ ان انڈیا نمائش بڑی کامیابی رہی جس میں لاہور چیمبرنے اہم کردار ادا کیا ۔ایسی نمائشوں کا انعقاد پاکستان بھارت میں بھی کر سکتا ہے ۔بھارتی ہائی کمیشن نے کہا کہ جہاں تک واہگہ بارڈر کے راستے 24گھنٹے تجارت جاری رکھنے۔فری ٹریڈ زون کا قیام اور ایک دوسرے کے ملکوں میں بنک برانچیں کھولنے پر غووروخوض ہو رہا ہے ۔سارک چیمبر کے نائب صدر افتخار علی ملک نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت 10ارب ڈالر تک بڑھائی جا سکتی ہے جس کے لئے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو نان ٹیرف بیریئر ختم اور ویزے میں آسانی فراہم کرنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام جنگ نہیں امن چاہتے ہیں اور نئی نسل تعلقات بہتر بنانا چاہتی ہے ۔موجودہ حکومت بھی تجارت بڑھانے کی خواہاں ہیں جبکہ یہاں کے کاروباری افراد بھی بھارت سے تجارت چاہتے ہیں۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر ایس ایم نصیر نے کہا کہ اگر مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی اکٹھا ہو سکتا ہے تو پاکستان اور بھارت اپنے تنازعات بھلا کر تعلقات کیوں بہتر نہیں بنا سکتے۔دونوں ملکوں کی کاروباری برادری اور عوام ایک دوسرے سے ملنا اور تجارت کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو اہم فیصلے کرنے ہوں گے جس کے لئے ہمیں چھوٹے چھوٹے مسئلے ختم کرنے ہوں گے ۔سمندر میں کون سی سرحد ہوتی ہے کہ آئے دن پاکستانی ماہی گیروں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور پھر بعد میں رہا کر دیا جاتا ہے ۔ایسے واقعات ختم ہونے چاہئیں۔کاروباری افراد اور عوام کو ویزے میں مزید آسانی فراہم کی جائے۔تجارت بڑھانے کے لئے نان ٹیرف بیریئر ختم کئے جائیں اور پاکستان کو بھی برابری کی سطح پر تجارت کا موقع دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل،انجینئرنگ،آئی ٹی انڈسٹری اور زراعت میں جوائنٹ وینچرز سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔واہگہ بارڈر پر فری ٹریڈ زون کے قیام سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ مل سکتا ہے۔انہوں نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ بھارت کو فوری طور پر پسندیدہ ملک کا درجہ دے دیا جائے کیونکہ بھارت پاکستان کو پہلے ہی یہ درجہ دے چکا ہے اس میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

مزید :

صفحہ اول -