’’حکم اذاں‘‘ کی تعارفی تقریب میں امیر جماعت اسلامی کا موقف
ان دنوں اہل پاکستان ایک عجیب مشکل سے دو چار ہیں۔ ملک کے حکمران اسے عملی طور پر نہ سہی کاغذی طور پر لندن و پیرس کے برابر دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے آئین پاکستان میں اُردو کو قومی، سرکاری، تدریسی اور دفتری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود سرکاری و دفتری، تدریسی اور کاروباری غرض ہر لحاظ سے انگریزی کو فوقیت دینے پر مصر ہیں تاکہ ان کے بچوں کو یورپ میں حصول روز گار میں دقت پیش نہ آئے۔ بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، کمپیوٹر اور اسی نوعیت کے دوسرے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ اُردو، فارسی، عربی، فلسفہ، حکمت، جغرافیہ، نفسیات، عمرانیات اور اس نوعیت کے دوسرے مضامین کی اہمیت کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں فارسی کے اساتذہ سارا دن طالب علموں کے انتظار میں مختلف جگہوں پر بیٹھ کر اور گپیں مار کر اپنی ملازمت کا دورانیہ پورا کرتے ہیں۔ اکثر تعلیمی ادارے جن میں سرکاری ادارے بھی شامل ہیں بند ہو رہے ہیں اور آرٹس کے مضامین پڑھنے والے نوجوان مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ملک میں ایک طبقہ اپنی مرضی کا نظام لانا چاہتا ہے اور وہ بزور شمشیر اور موجودہ دور میں بزور بارود اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہے۔ سکولوں اور کالجوں کو ہسپتالوں کو جنازہ کے اجتماعات کو سرکاری املاک کو یہاں تک کہ مختلف مسالک اور مذاہب کے مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بڑے فخر سے ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی جا رہی ہے۔
ادھر بعض لوگ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے افکار اور علامہ محمد اقبالؒ کے دیئے گئے رہنما اصولوں کو نظر انداز کر کے پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی ریاست بنانے کی بجائے ایک سیکولر مملکت بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر کوئی آزاد ہو اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اکثر سیاسی جماعتوں نے اپنے عسکری ونگز بنا رکھے ہیں اور وہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث افراد کو پناہ دیئے ہوئے ہیں اور جب ان کے خلاف ریاستی ادارے کارروائی کرتے ہیں تو اسے سیاسی انتقام کا نام دے کر شور مچایا جا رہا ہے۔ان حالات میں عظیم گروپ آف پبلی کیشنز کے منیر احمد نے ایک مقامی ہوٹل میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کی کتاب ’’حکم اذاں‘‘ کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا۔ جس کی صدارت امیر جماعت اسلامی سینٹر سراج الحق نے قبول فرمائی جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔ جبکہ مہمان مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری، جناب مجیب الرحمن شامی، محمد اعجاز الحق، پروفیسر خورشید رضوی، سہیل وڑائچ، قمر زمان کائرہ، سعید آسی، یاسر پیرزادہ، لیاقت بلوچ، فرخ سہیل گوئندی، حفیظ اللہ نیازی، بشریٰ رحمن، ڈاکٹر سکندر، محترمہ مریم گیلانی، طیبہ ضیاء،چیمہ شامل تھیں جبکہ ڈاکٹر فریداحمد پراچہ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے۔
اس تقریب سے اگرچہ حفیظ اللہ نیازی، مریم گیلانی، جمیل اطہر، فرخ سہیل گوئندی، یاسر پیرزادہ اور محترمہ طیبہ ضیاء چیمہ نے خطاب کیا۔ لیکن ان کا زیادہ تر خطاب صاحب کتاب اور کالم نگاری کے بارے میں ہی تھا۔ محترم جمیل اطہر نا سازی طبع کی وجہ سے اور سہیل وڑائچ پرچی کا خوف ظاہر کر کے اپنے خطاب کو مختصر کر گئے۔ البتہ انہوں نے صاحب تصنیف کی تین خوبیوں کو اُجاگر کیا کہ وہ اپنے خیالات کو ترتیب دے کر لکھتے ہیں اور کسی بھی مسئلہ کا حل پیش کرتے ہوئے دوسروں کے لئے آسانی پیدا کرتے ہیں اور جو بھی لکھتے ہیں با مقصد لکھتے ہیں اور اپنا ہدف طے کر کے لکھتے ہیں۔اسی طرح پروفیسر خورشید رضوی اور ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے بھی بطور استاد اور سینئر ساتھی ان کے فنِ کالم نگاری پر خوبصورت تبصرہ کیا۔ جبکہ محمد اعجاز الحق نے بتایا کہ مصنف ’’حکم اذاں‘‘ کے ذریعے سوئی ہوئی ملت اسلامیہ کو بیدار کرنے کا کام لے رہے ہیں کیونکہ امریکہ اور اس کے حلیف مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملا عمر کی طرف سے گرفتار شدہ یورپی صحافی خواتین کی رہائی کے وعدے کے باوجود افغانستان پر حملہ کیا گیا۔
محترم مجیب الرحمن شامی نے مصنف کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حسین احمد پراچہ اگرچہ کالم نگار ہیں مگر ایسے کالم نگار ہیں جو سوچ سمجھ کر رائے دیتے ہیں آپ ان سے اختلاف تو کر سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے۔ حالانکہ اکثر کالم نگار دنیا کے ہر مسئلے اور ہر معاملے پر اظہار خیال کرتے ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ اگر کالم نگاروں کی کیبنٹ بن گئی تو حالات کیا ہوں گے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اس وقت عالم اسلام کے حالات انتہائی نازک صورت حال اختیار کر رہے ہیں۔ دشمنوں نے ملت اسلامی سے نبٹنے کے لئے اس کے اندر سے ہی اپنے آلہ کار تلاش اور تیار کر لئے ہیں عراق اور شام کے بعد اب پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم قلم اور علم سے تعلق قائم کریں اور اس کے زور پر آگے بڑھیں اور اگر ہم نے اس تعلق کو کمزور کر دیا تو ہمارے لئے بہت مشکل ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب ختم نبوت کے قائل ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی ایسا شخص نہیں آئے گا جو یہ دعویٰ کر سکے میری بات سو فیصد درست ہے۔
صاحب کتاب حسین احمد پراچہ نے کہا کہ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جو اپنی زبان میں علمی تحقیق نہ کرتی ہو۔ انہوں نے امیر جماعت اسلامی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ جماعت اسلامی اُردو زبان کے ذریعہ تعلیم بنانے میں پیش پیش تھی مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اس کے جواب میں امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کا موقف تبدیل نہیں ہوا بلکہ حالات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ صوبہ کے بی کے میں ہم نے اُردو زبان کے نفاذ کا کام مکمل کر لیا تھا مگر حکومت کی تبدیلی سے یہ معاملہ بھی سرخ فیتے کا شکار ہو گیا۔انہوں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ ہم نے پاکستان کو اس کے قیام کے مفاصد سے بہت دور کر دیا ہے۔ اس وقت ملک میں کسی بھی شعبے کو اسلام کے مطابق نہیں چلایا جا رہا۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ پاکستان لا الہ اِلا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا پاکستان کی منزل ریاست مدینہ کا قیام تھا مگر 68 سال گزرنے کے باوجود ہم یہ منزل نہیں حاصل کر سکے۔ حالانکہ پاکستان کو افراد یا سیاسی پارٹیوں کی نہیں بلکہ آئین، میرٹ اور اسلام کی حکمرانی کی ضرورت ہے۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ایسا نظام حکومت قائم کریں جس میں صدر اور چوکیدار سمیت سب جوابدہ ہوں اور قانون کی نظر میں برابر ہوں۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج ہو اور ذریعہ تعلیم قومی زبان ہو حالانکہ اس وقت جو حالات میں اس میں چند سال بعد اُردو آثار قدیمہ میں شمار ہونے لگے گی، انہوں نے کہا کہ ہم اردو سے مراد دہلی کی زبان نہیں بلکہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بولی اور سمجھی جانے والی اردو لیتے ہیں اور بتایا کہ وہ اس دعوت نامے کو قبول نہیں کرتے جو اُردو زبان میں نہ ہو۔
ٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗانہوں نے موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک دہشت گردی اور افراتفری کی زد میں ہے اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا خواہ وہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہو یا مدرسے کا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی اصل منزل کی طرف لوٹنا ہے اور علامہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی روشنی میں ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی، فلاحی ریاست بنانا ہے۔ یہی ہماری ترقی و کامرانی کا راستہ ہے۔محترم سراج الحق صاحب امیر جماعت اسلامی کا منصب سنبھالنے کے بعد مسلسل ملک میں قانون کی حکمرانی، 5 فیصد اشرافیہ کے تسلط سے آزادی اور ملک میں اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی بات کر رہے ہیں۔ کے پی کے نے اب اُنہیں سینٹ میں پہنچا دیا ہے تاکہ وہ وہاں زیادہ بہتر انداز میں کام کر سکیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے عوام کیا سوچ رہے ہیں کیا وہ سچے دل سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہیں۔ یا وہ سیاسی طالع آزماؤں کے مشق ستم بننے کا سلسلہ جاری رکھیں گے جو مختلف نعروں اور وعدوں کے ذریعے انہیں اپنا ہم نوا بناتے ہیں اور بعد میں ان وعدوں سے یہ کہہ کر صاف مکر جاتے ہیں کہ یہ وعدے کوئی صحیفہ آسمانی نہیں۔آنے والے بلدیاتی اور قومی و صوبائی انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے۔ ہمارے خیال میں ملک میں بر سر پیکار عسکری گروپوں کو بھی آئینی راستہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ لوگ پر سکون حالات میں زندگی بسر کر سکیں اور اپنے اور ملک کے مستقبل کا تعین کر سکیں۔