یوحنا آباد کا سبق

یوحنا آباد کا سبق
یوحنا آباد کا سبق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بزدلی کو مصلحت کا نام دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ سچائی سوا نیزے پر آئے سورج کی مانند سروں کے عین اوپر موجود ہے۔ یوحناآباد میں چرچوں کے باہر ہونے والے خودکش دھماکے اور اس کے بعد ہونے والا ردعمل دونوں ہی ناقابل قبول ہیں۔ اگر یہ مفروضے تسلیم کر لئے جائیں کہ لاہور میں دہشت گردی کی واردات افغانستان میں 2طالبان کمانڈروں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کیلئے کی گئی یا پھر اس کا تعلق جنوبی وزیرستان میں 2روز قبل ملنے والی 11لاپتہ جنگجوؤں کی لاشوں سے تھا تو معمولی فہم رکھنے والا انسان بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بدلہ لینے کیلئے کتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانا مقصود تھا۔ 2خودکش حملہ آوروں کے چرچوں کے باہر دھماکوں کے باعث اب تک ہونے والی کل ہلاکتیں 17 ہیں جن میں ایک پولیس والے سمیت 5مسلمان بھی شامل ہیں۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ دہشت گردوں کو چرچوں کے اندر داخل ہو کر سینکڑوں بیگناہ افراد کو لقمہ اجل بنانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس بات کا کریڈٹ یقیناًوہاں موجود سکیورٹی کے ذمہ داروں کو ملنا چاہیے۔ عبادت گاہوں کی حفاظت کیلئے جو اقدامات بھی کئے گئے اس میں لازمی طور پر سرکاری اداروں کی ہدایات اور مشوروں کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ اسی وجہ سے بڑے پیمانے پر لاشوں کے ڈھیر لگانے کا مذموم منصوبہ دھرا رہ گیا۔


دہشت گردی کا سامنا پوری قوم کو کرنا پڑ رہا ہے اور یہ صورتحال پچھلے کئی برسوں سے درپیش ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں فوجیوں کے معصوم بچے بھی اپنے خون کا نذرانہ دے چکے۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل اور ایک میجر جنرل سمیت پاک فوج کے کئی افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ آپریشن ضرب عضب کی صورت میں اس وقت ہم عملاً حالت جنگ میں ہیں۔ اب تو بچے بچے کو پتہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن جنگ تو ہر صورت لڑنا ہے اور کامیابی بھی حاصل کرنی ہے۔ یوحناآباد میں لیکن ایسا کیا ہو گیا کہ شہر کو یرغمال بنا کر خوفناک توڑپھوڑ کی گئی۔ بے ہودگی کی انتہا کر دی گئی۔ 2نوجوانوں کو صورت سے باعمل مسلمان نظر آنے پر زندہ جلا دیا گیا۔ یہ کھیل کس نے، کس کے اشارے پر کھیلا؟ اس کا پتہ چلانا تحقیقاتی اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی ماننا ہو گا کہ انتظامیہ اور پولیس امن و امان بحال کرنے میں محض ناکام ہی نہیں رہے بلکہ انہوں نے عملی طور پر اس کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ تو مقامی مسلمان آبادی کا ردعمل تھا جسے دیکھ کر بلوائی الٹے پاؤں لوٹے اور سول انتظامیہ کو معاملات مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے رینجرز طلب کرنا پڑی۔ مقامی مسجد سے ہونے والے اعلانات کے بعد نعرۂ تکبیر بلند ہوا اور پھر ہر طرف امن ہوتا چلا گیا۔


لاہور 2روز تک المناک واقعات کی لپیٹ میں رہا۔ معاملے کا انتہائی شرمناک پہلو تو یہ بھی ہے کہ جن 2نوجوانوں کو داڑھیاں دیکھ کر پکڑا گیا تھا، انہیں بے لگام بلوائی پولیس حکام کی تحویل سے چھڑا کر لے گئے۔ زندہ جلائے جانے کا کھیل پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسروں کی موجودگی میں کھیلا گیا۔ ایک نوجوان حافظ نعیم اسی آبادی میں 10سال سے شیشے اور ایلومینیم کا کام کر رہا تھا۔ یوحناآباد کے اکثر مکین اس سے براہ راست واقف تھے۔ کھینچاتانی شروع ہوئی تو وہ بعض بلوائیوں کے نام دہائی دیتا رہا، جان بخشی کیلئے منت سماجت کرتا رہا۔ لوہے کی سلاخیں، پتھر، ڈنڈے، گھونسے برستے رہے۔ وہاں موجود ایک اور باریش نوجوان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ دونوں کو مار مار کر ادھ موا کرنے کے بعد پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔ مسخ لاشوں کی پھر سے بے حرمتی کی گئی۔

دوسری جانب بلوائیوں نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیا۔ محض میٹروٹریک اور دفاتر ہی نہیں بلکہ سینکڑوں دکانوں اور راہگیروں کو بھی لوٹ لیا گیا۔ فیروز پور روڈ جیسی اہم شاہراہ بھارتی گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کا منظر پیش کرتی رہی۔ ہر آتے جاتے کو تھپڑوں، گھونسوں، لاتوں اور ڈنڈوں کا نشانہ بنانے کے بعد لوٹا گیا۔ غلیظ گالیوں کی بھر مارکر دی گئی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ وقت بھی آنا تھا کہ موٹر سائیکل سوار ایک بزرگ شہری نے بے قابو بلوائی دیکھ کر رومال کے ذریعے اپنی داڑھی کو چھپانا چاہا۔ بلوائی مگر اس پر پل پڑے۔ زبردست ٹھکائی کرنے کے بعد موٹر سائیکل کو آگ لگا دی گئی۔ سینکڑوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں صرف لاہور میں ہی نذر آتش کر دی گئیں۔ دیگر شہروں میں بھی اسی نوعیت کے مظاہرے کئے گئے۔ خودکش حملوں کے تھوڑی دیر بعد ہی ملک گیر احتجاج شروع ہو گیا۔ حیرت انگیز طور پر وہ تمام مقامات بند کر دیئے گئے جہاں نقل و حرکت رکنے سے ملک عملًا جام ہو جاتا ہے۔ اور تو اور جناب وزیراعظم بھی محصور ہو گئے۔ فیصل آباد، گوجرہ موٹر وے کے افتتاح کیلئے نہ جا سکے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ احتجاج کرنے والوں کو منظم طریقے سے گائیڈ نہیں کیا جا رہا تھا اور وہ خود ہی میدان میں نکل آئے تھے تو اس پر اعتبار کیونکر کیا جا سکتا ہے۔


پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا رویہ عدم مداخلت پر مبنی تھا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ افسران کے ساتھ شدید بدسلوکی کی گئی۔ دھکے مارے گئے، بعض ما تحت اہلکاروں کو بری طرح زدوکوب بھی کیا گیا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ ہوتے بھی کیسے؟ مشہور زمانہ دھرنوں سے قبل ماڈل ٹاؤن میں پیش آنے والے واقعہ نے پولیس حکام کی خود اعتمادی بری طرح سے مجروح کر کے رکھ دی۔ رہی سہی کسر اس وقت نکل گئی جب دھرنا دینے والی جماعتوں کے کارکنوں نے پولیس والوں کو جگہ جگہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ سکرپٹ رائٹر حکومت تو نہ گرا سکا لیکن اسے ’’یہ اعزاز‘‘ بہر طور حاصل ہے کہ سویلین ریاستی اداروں کی رٹ کو بڑی حد تک روندنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب اسکا خمیازہ محض عام عوام کو نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان پر دہشت گردی کی لعنت امریکہ اور اس کے پٹھو حکمرانوں نے مسلط کی۔ خود امریکہ کا یہ حال ہے کہ نیٹو افواج کے ہمراہ برسوں افغانستان میں جھک مار کر واپس نکلنے پرمجبور ہو گیا۔ پاکستانی قوم قربانیاں دے رہی ہے اور دیتی رہے گی۔ پورے عزم کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ بھی کرے گی اور ان شاء اللہ سرخرو بھی ہو گی لیکن ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہمارے پڑوس میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والی ہر تخریبی کارروائی کے تانے بانے بھارت اور اسکی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی ’’را ‘‘ سے ہی ملتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر نسلی، علاقائی اور لسانی تصادم کو ہوا کون دے رہا ہے ؟ اقلیتوں کے خلاف بزدلانہ کارروائیاں کرنے والوں کو مدد دینے والوں میں دشمن ممالک پیش پیش ہیں۔ یوحنا آباد کا واقعہ آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے کہ جس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بعض راہگیر مسلمانوں کو وقتی طورپر اپنی شناخت چھپانا پڑی۔ محب وطن اور پرامن اقلیت مسیحی برادری کی آڑ لے کر شرپسندوں نے جو حرکات کیں وہ خوفناک اشتعال کو جنم دینے کا سبب بن سکتی تھیں۔ شرپسندوں کی پشت پناہی کرنے والے بھی شاید یہی چاہتے تھے کہ ردعمل سامنے آئے اور پھر پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا جا سکے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ خود کش دھماکوں کے فوری بعد بعض این جی اوز کے کارندے موقع پر پہنچ گئے، بلوائیوں کو تشدد پر اکساتے رہے تاکہ بڑے تصادم کے بعد کوئی بڑا نقصان ہو اور وہ اپنی دکانداری چمکا سکیں۔ غیر ملکی فنڈز سے پلنے والی این جی اوز وطن عزیز کیلئے ناسور بنتی جا رہی ہیں اور تو اور ایک موقع پر خود آرمی چیف این جی اوز کی سرگرمیوں پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
مسیحی برادری کو بالخصوص اس سازش کا ادراک کر لینا چاہیے۔ یوحناآباد سانحہ کے بعد لاہور اور پورے پاکستان میں منظم احتجاج ایک بڑی گیم کا حصہ نظر آتا ہے۔ حکومتی حلقوں کی اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر بلوائیوں کے خلاف طاقت استعمال کی جاتی تو دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور میڈیا کے مخصوص عناصر نے طوفان اٹھا دینا تھا۔ یہ دلیل درست ہو بھی تو یہ بات کیسے نظرانداز کی جاسکتی ہے کہ امن وامان کا قیام ہر حال میں حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ فورس کے مورال کو بحال کرنے کیلئے باہر سے کوئی نہیں آنے والا۔ اپیکس کمیٹیوں پر سیاسی اعتراضات اپنی جگہ لیکن مناسب ہو گا کہ آئندہ بڑی ہنگامہ آرائی کے موقع پر اس کی مشاورت اور حمایت سے فوری فیصلے کرکے عملدرآمد کیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے اختیارات بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی مکمل آزادی دینا ہو گی۔


وزیرداخلہ چودھری نثار نے قومی اسمبلی میں یہ کہہ کر پوری قوم کی نمائندگی کردی ہے کہ ’’یوحنا آباد میں دہشت گردی کا واقعہ دلخراش تھا لیکن اس کے ردعمل میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ لاہور میں ہونے والا ردعمل ملک،قانو ن اور جمہوریت کیلئے باعث تضحیک تھا۔2 شریف شہریوں کو زندہ جلانے والوں کیخلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔سرکاری اور نجی املاک کو نشانہ بنانے والے ایک ایک شخص کو پکڑا جائے گا‘‘۔۔۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ آج بھی جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گی۔اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہماری ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے، ایسا کرنا ہرگز ناممکن نہیں۔ یوحنا آباد واقعہ اور اسکے بعد ہونے والے رد عمل پر وزیر داخلہ کا بیان سو فیصد درست ہے لیکن اسکا فائدہ صرف اسی صورت ہوگا جب عملدرآمد ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے۔ بیرونی دشمنوں کے ایجنٹ ہماری صفوں میں گھس چکے ہیں۔قانون کا آہنی ہاتھ استعمال کر کے انہیں جلد از جلد گردنوں سے دبوچا جائے ورنہ نوشتہ دیوار تو یہ ہے کہ آئندہ کبھی اس قسم کا رد عمل ہوا تو جوابی ردعمل روکنا شاید کسی کے بس میں نہ رہے۔


پاکستان کے اندر کسی کو غیر ملکی ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہو یا پھر وہ خود قانون کو روند کر اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کرے، یہ ممکن نہیں۔ اسلام اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور حقوق دیتا ہے۔یہاں کوئی مسلم، مسیحی تنازع ہے نہ اس کا کوئی جواز ۔یہ بھی طے ہے کہ عام پاکستانی مسلمان ہو یا پھر مسیحی آبادی کے افراد ،کوئی بھی ’’سپر سٹیزن‘‘ نہیں۔قانون کے سامنے سب کو سرنگوں ہونا ہو گا۔

مزید :

کالم -