نیپال میں سرتاج عزیز اور سشما سوراج کی ملاقات
نیپال کے شہر پوکھرا میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کے لئے پاکستانی تحقیقاتی کمیٹی27مارچ کو بھارت جائے گی۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران دو طرفہ امور اور جامع مذاکرات کی بحالی پر غور کیا گیا۔ سرتاج عزیز نے بھارتی وزیر خارجہ کو اِسی سال اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں وزیراعظم مودی کی شرکت کا باضابطہ دعوت نامہ بھی دیا۔ سائیڈ لائن میں انہیں دورۂ پاکستان کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ سرتاج عزیز نے ملاقات کو خوشگوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِس ملاقات کا بنیادی مقصد دعوت نامہ بھارتی وزیر خارجہ کے حوالے کرنا تھا۔ پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں رکاوٹ آئی تھی جسے اب دور کر لیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام معاملات پر بات چیت کے لئے سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ سرتاج عزیز نے امریکہ میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی 31مارچ کو ملاقات کا بھی عندیہ دیا جہاں دونوں رہنما عالمی نیو کلیئر کانفرنس میں شرکت کے لئے اکٹھے ہوں گے۔اس بار جس طرح پٹھان کوٹ واقعے کو دیکھا گیا ہے، جس طرح سے تعاون ہوا ہے اور اب جے آئی ٹی وہاں جا رہی ہے۔ ہمارا خیال ہے اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ سرتاج عزیز نے کہا جو چند ایشوز رہ گئے ہیں ان پر کام کیا جائے گا۔ بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیجو نے نئی دہلی میں کہا ہم نے اپنا کیس آگے بڑھانے کے لئے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو دورے کی سہولت دینے کے لئے اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور ٹیم کو سات دن کا ویزہ جاری کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ تین مہینوں کے دوران سرتاج عزیز اور سشما سوراج کی یہ دوسری ملاقات ہے، پہلی ملاقات اسلام آباد میں اُس وقت ہوئی جب بھارتی وزیر خارجہ ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئیں۔ اس موقع پر انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان معطل شدہ مذاکرات نئے نام سے شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، اس سلسلے میں خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات بھی اسلام آباد میں طے پا گئی تھی کہ2جنوری کو پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دہشت گردی کا واقعہ ہو گیا، ساتھ ہی بھارتی میڈیا اور وزیروں سمیت بعض سیاست دانوں نے پاکستان پر حسبِ معمول اور حسبِ عادت الزام تراشی شروع کر دی، لیکن جوں جوں واقعات کی تہوں سے پردہ اُٹھتا گیا، بھارت پر بعض ایسی حقیقتیں بھی واشگاف ہونے لگیں جن کی وجہ سے ہی اس نے محسوس کیا کہ بلا تحقیق اور بلا جواز الزام تراشی کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا، چنانچہ اس کے رویئے میں تبدیلی آنے لگی۔ اگرچہ اب بھی کہا یہ جا رہا ہے کہ جن ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ نے پٹھان کوٹ میں دہشت گردی کی اُنہیں پاکستان کی حمایت حاصل تھی، تاہم اب جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) کو بھارت کے دورے اور وہاں تحقیقات کی اجازت اِسی بدلے ہوئے رویئے کی غماز ہے، پاکستان میں بھی اِس حملے کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کی گئی اور اس کی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔ اگر نیک نیتی، غیر جانبداری اور شفاف طریقے سے یہ تحقیقات ہوئی تو حملے کے پس پردہ عوامل اور نان سٹیٹ ایکٹرز کا پتہ چلایا جا سکتا ہے اور تحقیقات کے نتیجے میں اُن لوگوں کے نیٹ ورک تک بھی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، جنہوں نے یہ واردات کی۔یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ دہشت گردی کا ایک واقعہ بھارت کی سرزمین پر ہُوا اور پاکستان کی ٹیم اِس کی تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کر رہی ہے ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، یک طرفہ طور پر الزام تراشیاں تو بہت ہوئیں لیکن ٹھوس عملی کام اب ہو رہا ہے۔اگر تحقیقات کے نتیجے میں ایسی معلومات ملیں جن سے دہشت گردوں کا سرا ہاتھ آ جائے تو یہ دونوں ملکوں کے لئے مفید ہو گا، دہشت گردی کا شکار صرف بھارت ہی نہیں پاکستان بھی ہے، بلکہ پاکستان میں تو دہشت گردی کی وارداتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، بلوچستان میں تو دہشت گردی کے جو واقعات ہوتے ہیں اُن کے بارے میں پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد افغانستان کے راستے سے آتے ہیں، اِس کے ثبوت بھی بھارت کے حوالے کئے گئے تھے۔ دہشت گردی کا یہ سلسلہ جاری ہے اور رُکنے میں نہیں آ رہا تو آخر اِس عفریت کا علاج کیا ہے؟ اور اس پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟ یہ دونوں ملکوں کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کریں۔
پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کے نتیجے میں بالآخر کیا سامنے آتا ہے؟ یہ تو کمیٹی کی رپورٹ میں ہی پتہ چلے گا، لیکن اس کو بہرحال ایک مثبت پیش رفت سمجھا جانا چاہئے اور اگر اس کی وجہ سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور تعمیری طرزِ عمل سامنے آتا ہے تو اس کی تعریف کی جانی چاہئے۔ بھارت میں اس وقت جو پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں اور جس کا اظہار پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورے کے موقع پر ہوا، ٹیم کو ملنے والی دھمکیوں کے نتیجے میں دھرم شالا (ہما چل پردیش) میں میچ ہی نہ ہو سکا اور اس میچ کو کولکتہ(مغربی بنگال) منتقل کرنا پڑا اِس طرح کا انتہا پسندانہ طرزِ عمل کسی طور پر حالات کو بہتری کی جانب نہیں لے جا سکتا، کرکٹ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ایک مقبول کھیل ہے، دونوں ملکوں کے عوام کے مشترکہ جذبات و احساسات کو بھی اگر مثبت رُخ نہ دیا گیا تو پھر کھیل سیاست اور کشیدگی کی نظر ہی ہوتے رہیں گے، اصل ضرورت تو یہ ہے کہ کھیل کو بہتری کے لئے استعمال کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت کے سیکیورٹی ایڈوائزروں کے درمیان جو قریبی رابطے ہیں اُس کے بھی مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ہانگ کانگ میں ان دونوں کی ملاقات کے بعد ہی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کی اسلام آباد آمد ممکن ہوئی تھی۔ اِنہی قریبی رابطوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ نے بھارت کو اطلاع دی کہ بھارتی صوبے گجرات میں دس دہشت گرد داخل ہوئے ہیں، اس پر بھارت نے اپنی سیکیورٹی سخت کر دی اور وہاں دہشت گردوں کی تلاش بھی شروع کر دی گئی، چند روز قبل ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ ان میں سے تین دہشت گردوں کو بھارت میں ہلاک کر دیا گیا، اس انٹیلی جنس شیئرنگ کا فوری فائدہ بھارت کو ہی حاصل ہوا، اِسی سے ثابت ہوا کہ الزام تراشی نہیں عملی کام سے مفید نتیجے نکلتے ہیں اگر دونوں اِسی طرح نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے، چونکہ یہ عفریت دُنیا بھر میں پھیل چکا ہے اِس لئے دُنیا کو متحد ہو کر ہی اس کا مقابلہ کرنا ہے، پاکستان اور بھارت اگر اچھے ہمسایوں کی طرح آئندہ بھی ایک دوسرے کے لئے خیر خواہی کا اظہار کریں تو دونوں کا بھلا ہو گا۔31مارچ کو واشنگٹن میں نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات اگر ہوتی ہے تو مذاکرات کے رُکے ہوئے سلسلے کو آگے بڑھانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ نریندر مودی کو یہ بات پیش نظر رکھنا ہو گی کہ انتہا پسندوں کا یرغمالی بن کر خطے میں بھی نہ تو امن قائم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کو خوشحالی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ دونوں حکومتوں کو اپنے اپنے طور پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو امن کی راہ پر آگے بڑھنے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔