چیف جسٹس کے انکار کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار کا تخت ڈو ل گیا

چیف جسٹس کے انکار کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار کا تخت ڈو ل گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

جنرل (ر) پرویز مشرف اس وقت دبئی میں ہیں اور جب ان کا دل چاہے گا، اپنی پسند کے کسی ملک میں علاج کرانے کے لئے چلے جائیں گے۔ زیادہ امکان ان کے امریکہ جانے کا ہے، فی الحال انہوں نے دبئی میں ’’بریک جرنی‘‘ کیا ہوا ہے۔ ان کی غیر حاضری میں یہاں لکیر پیٹنے والے بہت ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اپنا یہ عمل شد و مد سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بے نظیر نے مشرف کو وردی اور زرداری نے صدارت سے محروم کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب زیر سماعت مقدمات ادھورے رہ جائیں گے۔ ان کی پارٹی کے دوسرے سینئر رہنماؤں نے بھی اپنے اپنے انداز میں تبصرے کئے ہیں۔ یہاں ذرا رک کر جائزہ لینا پڑے گا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف جو وردی میں صدر منتخب ہوگئے تھے، اور ان کے ایسے بہی خواہ بھی یہاں کثیر تعداد میں موجود تھے، جو انہیں دس مرتبہ وردی میں منتخب کرانے کے لئے تیار تھے اور اپنے اس نیک ارادے کا اظہار انہوں نے جلسہ عام میں بڑے مجمع میں تقریر کرتے ہوئے کیا تھا، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر یہ چاہتے تھے کہ مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتحب کرایا جائے۔ یہ تو مشرف تھے جو ایک ہی بار منتخب ہوکر ہمت ہار بیٹھے اور یہ ٹرم بھی پوری نہ کی اور صدارت چھوڑ کر اقتدار سے الگ ہوگئے، ورنہ ان کے بہی خواہوں نے تو ان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے تھے اور گلشن میں تنگی داماں کا علاج بھی تھا۔
ایک سوال بہت اہم ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا تخت طاؤس ڈانواں ڈول کیوں ہوا؟ انہوں نے 2002ء میں اپنی نگرانی میں الیکشن کرائے تھے، ان انتخابات کا نتیجہ کچھ یوں برآمد ہوا کہ کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہوسکی، جو جماعت انہوں نے بنوائی وہ قومی اسمبلی کے ایوان کی سب سے بڑی جماعت تو ضرور بن کے ابھری، لیکن وہ اپنے بل بوتے پر حکومت نہیں بناسکتی تھی۔ سادہ اکثریت کے لئے بھی اسے دوسری جماعتوں اور آزاد ارکان کے تعاون کی ضرورت تھی۔ جنرل پرویز مشرف کی خواہش تو یہ تھی کہ مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنا دیا جائے لیکن شرط ان کی یہ تھی کہ وہ بے نظیر کو خیرباد کہہ کر آئیں، یا پھر ان سے اجازت لے کر، یہ دونوں کام نہ ہوسکے اور جنرل پرویز مشرف کی دامن کوہ کے ایک ریسٹورنٹ میں ان کے ساتھ جو ’’اچانک‘‘ ملاقات ہوئی جہاں ’’اچانک‘‘ ایک فوٹو گرافر بھی یہ تاریخی تصویر لینے کے لئے پہنچ گیا تھا اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر ایک مخدوم نہیں آتا تو دوسرے مخدوم سے کام چلا لیا جائے چنانچہ راؤ سکندر اقبال اور مخدوم فیصل صالح حیات کی کوششوں سے پیپلز پارٹی کے دس ارکان کا ایک گروپ علیحدہ کیا گیا جس کا نام ’’پیپلز پارٹی پیٹریاٹس‘‘ رکھا گیا، یہ لوگ ملک و قوم سے محبت کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے الگ ہوئے اور مسلم لیگ (ق) کی حمایت کر دی جس نے ایک ووٹ کی اکثریت سے میر ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم بنا دیا، بہت سے آزاد ارکان نے جن میں عمران خان اور پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری بھی شامل تھے، جمالی صاحب کو ووٹ دیا، ورنہ ایک ووٹ کی اکثریت بھی کاردارد تھی۔ یوں بلوچستان کے صوبے کو یہ شرف حاصل ہوگیا کہ پہلی مرتبہ ایک بلوچ ملک کا وزیراعظم بن گیا۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل منصوبہ تو یہ تھا کہ شوکت عزیز کو وزیراعظم بنایا جائے لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ ملک کے کسی بھی حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب نہیں ہوسکتے تھے، چنانچہ عبوری انتظام کے تحت پہلے میر ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنایا گیا، پھر ایک مخصوص مدت کے بعد ان سے استعفا لیا گیا۔ ان کی جگہ چودھری شجاعت حسین کو وزیراعظم بنا کر ’’ہدایت‘‘ کی گئی کہ وہ شوکت عزیز کو ایم این اے منتخب کرائیں، چنانچہ انہیں اٹک اور تھرپارکر کی دو نشستوں سے ضمنی انتخاب میں ایم این اے منتخب کرایا گیا اور پھر انہیں وزیراعظم بنا دیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف بڑے اطمینان کے ساتھ اس طرح کے چمڑے کے سکے چلا رہے تھے جو چاہتے تھے، کرتے تھے، جسے چاہتے تھے وزیراعظم بنا دیتے تھے، کوئی ان کو چیلنج کرنے والا نہ تھا، پیپلز پارٹی کے دو ٹکڑے ہوچکے تھے، اس سیاست سے مایوس ہوکر بے نظیر بھٹو بیرون ملک جاچکی تھیں، لندن میں ایک کل جماعتی کانفرنس ہوچکی تھی جس میں ایک میثاق جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی) بھی منظور ہوچکا تھا۔ نواز شریف بیرون ملک سے آنے کی ناکام کوششیں کرچکے تھے اور انہیں واپس بھیج دیا گیا تھا۔ ان حالات میں مشرف کے اقتدار کو کوئی چیلنج درپیش نہیں تھا۔ انہوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک این آر او سائن کیا جائے جس کے تحت وہ ملک میں واپس آکر اپنا کردار ادا کریں لیکن واپس الیکشن کے بعد آئیں جو 2007ء کے لئے طے شدہ تھے۔ این آر او کا مسودہ کئی بار بے نظیر کو بھیجا گیا اور کئی بار واپس جنرل پرویز مشرف کے پاس آیا اس کی تفصیلات کا یہ محل نہیں تاہم جو قارئین اس سلسلے کی تفصیلات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کی کتاب ’’نوبیٹر آنر‘‘ کا متعلقہ باب پڑھ لیں۔ بعض تفصیلات بینظیر نے بھٹو اپنی کتاب ’’مفاہمت‘‘ میں بھی لکھی ہیں۔ این آر او کے بعد بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی آئیں تو ان کے استقبالی جلوس میں شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب دو خونیں دھماکے ہوگئے جن میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہوگئے۔ اس دھماکے کا اصل ٹارگٹ بے نظیر بھٹو تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بچا لیا ۔ کراچی میں تو وہ بچ گئیں لیکن چالیس روز بعد لیاقت باغ میں دہشت گرد ان کی جان لینے میں کامیاب ہوگئے اور پاکستان کی سیاست ایک نیا موڑ مڑ گئی۔
بے نظیر بھٹو کے واپس آنے سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو آرمی ہاؤس طلب کرکے پانچ دوسرے جرنیلوں کی موجودگی میں ان سے استعفا طلب کیا تھا جو انہوں نے نہیں دیا، چنانچہ انہیں چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ بعد میں وہ سپریم کورٹ کے حکم سے بحال ہوگئے، تو 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگا کر نئی سپریم کورٹ تشکیل دے دی گئی اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے تقریباً 60 ججوں کو گھر بھیج دیا گیا۔ ایک جانب چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک جاری تھی اور دوسری جانب بے نظیر کو سیاسی منظر سے ہٹا کر فروری 2008ء میں الیکشن کرا دئے گئے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی منتخب ہوئے۔ شروع میں مسلم لیگ (ن) کے وزرا بھی کابینہ میں شامل تھے لیکن بعد میں الگ ہوگئے۔ اس دوران جنرل پرویز مشر ف کے خلاف مقدمہ چلانے کی باتیں ہونے لگیں، اور اس مفہوم کی قرارداد اسمبلی میں لانے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے صدارت سے استعفا دیدیا۔ ان کی جگہ صدارت کا عہدہ آصف علی زرداری نے سنبھال لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر جنرل (ر) پرویز مشرف چیف جسٹس کے ساتھ محاذ آرائی مول نہ لیتے تو اس وقت تک ان کی صدارت کو کوئی خطرہ درپیش نہ تھا۔ پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک برسراقتدار رہی ، لیکن جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی وہ اپنی مرضی سے بیرون ملک گئے، مرضی سے واپس آگئے۔ کسی نے ان سے تعرض نہ کیا، آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ان کے خلاف بنایا اور اب تک زیر سماعت ہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکومت نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالا اور وہ بیرون ملک چلے گئے، تو لکیر پیٹنے والے متحرک ہوگئے ہیں۔ اس سے کیا حاصل ہوگا؟

مزید :

تجزیہ -