کیا سوشل میڈیا کو بند کیا جا رہا ہے ؟
کسی بھی ملک اور سوسائٹی میں شعور کو اجاگر کرنے اور عام آدمی کی تعلیم و تربیت کے لیے میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ آج کی جدید دنیا میں تو میڈیا رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ایک خوفناک ہتھیار کی شکل اختیار کر چکا ہے کسی معاشرے یا ملک میں اس ہتھیار کا استعمال مثبت ہوگا تو نتیجہ بہتری کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اگر اس کا منفی استعمال ہوگا تو یقینی بات ہے نتیجہ بھی غلط ہی برآمد ہوگا پاکستان میں روایتی میڈیا کو سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا نے نہ صرف جدت دی بلکہ مستقبل کی نئی راہیں بھی کھول دی۔ پرنٹ میڈیا پر چونکہ باقاعدہ ایڈیٹر سمیت کئی حضرات کا چیک موجود ہوتا ہے اس لیے پرنٹ میڈیا آج اس گئے گزرے دور میں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے اپنی ابتدا سے لیکر بھر پور آزادی تک اور پھر مادر پدر آزادی تک مختصر وقت میں کئی مراحل طے کیے اس دوران کچھ اچھے اور زیادہ تر برے اور خوفناک تجربات سامنے آئے مگر حکومت اور سوسائٹی نے الیکٹرانک میڈیا کو 8/10 سالہ کمسن بچہ سمجھ کر اسکی غلطیوں کو نظر انداز کیا اور آج تک یہ غلطیاں نظر انداز کی جا رہی ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بچے نے اگر اپنی اصلاح نہ کی تو اس کی غلطیوں کو زیادہ دیر تک شاید برداشت نہ کیا جاسکے۔ اب آتے ہیں سوشل میڈیا کی طرف جس نے مادر پدر آزادی سے بھی آگے کی اگر کوئی اصطلاح ہو سکتی ہے تو اس پر عمل شروع کر رکھا ہے سوشل میڈیا جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے اور اس پر کسی بھی ادارے یا حکومت کا عملاً کنٹرول نہیں اس لیے سوشل میڈیا سوسائٹی میں تعمیر کم اور تخریب کا زیادہ سامان فراہم کر رہا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں سے لیکر بیمار ذہنیت کے حامل افراد اپنی منفی حرکات کے لیے سوشل میڈیا کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اب تک سوشل میڈیا چند گھر آباد جبکہ ہزاروں گھر برباد کر چکا ہے۔ حکومت پاکستان نے سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے پیش نظر سائبر کرائم کا ایک قانون بنا کر اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر ابھی تک حکومت اس کوشش میں ناکام نظر آتی ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر کام کرنے والے بلاگر اور دیگر حضرات حکومت کی اس کوشش کو اظہار رائے کی آزادی کے منافی قرار دیتے ہیں حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود اس محاذ پر بری طرح ناکام نظر آتی ہے حکومت سائبر کرائم پر عمل کے لیے ایف آئی اے پر انحصار کرتی ہے جبکہ ایف آئی اے صرف اور صرف اس بل کو بھی اپنی کمائی کے ذرائع میں ایک خوبصورت اضافے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا ہتھیار ممالک اور قوموں کے مابین ایک جنگ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے امن دشمنوں اور اسلام دشمنوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے آقائے دو جہاں کے خلاف بے بنیاد اور توہین آمیز پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ کیونکہ اسلام کے دشمن سمجھتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ مسلمانوں میں ایک ایسی ہستی ہیں جو امن ، اتحاد ، اخوت ،سلامتی کی ضمانت ہیں۔ جب تک ان کو متنازعہ نہیں بنایا جاتا تب تک اسلام کی فاؤنڈیشن کو نہیں ہلایا جاسکتااس کے لیے اسلام دشمن قوتیں سوشل میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف اور اسلام کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اس اہم ترین ایشو پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نعرہ مستانہ بلند کیا ہے۔ حکومت نے متعلقہ اداروں اور اسلام دشمنوں کو احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان ہر بات پر سمجھوتا کر سکتا ہے مگر آقائے دو جہاں کی حرمت اور توقیر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا۔ عدالتی کارروائی جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے توں توں اسلام کے متوالوں کا پارہ بھی ہائی ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کو اچانک خیال آگیا ہے کہ اس حوالے سے کوئی قانون بھی موجود ہے ۔ اس حوالے سے کچھ سزائیں بھی تجویز کی گئی تھیں۔ جن پر عمل درآمد کیا جانا تھا مگر ابھی تک نہیں ہوسکا اب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اس لڑائی میں مکمل طور پر کود چکے ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اس لڑائی میں سوشل میڈیا کا گلہ مکمل طور پر گھونٹا جاتا ہے کہ یا پھر اس حوالے سے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومتِ وقت چاہتی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دباؤ کی آڑ میں سوشل میڈیا سے مکمل طور پر جان چھڑا لی جائے لیکن پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتیں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف ہیں۔ حکومت پاکستان کے پاس بدقسمتی سے کوئی ایسا میکنزم بھی موجود نہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مکمل طور پر کنٹرول کر سکے کیونکہ ہم فیس بک سمیت متعدد سوشل میڈیا سائٹس کے ساتھ ایم او یو نہیں کر سکے اسی لیے یہ ادارے اور ممالک کہتے ہیں کے ہم آپ کی بات ماننے کے پابند نہیں ہیں دوسری جانب بھارت فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا سائٹس پر پوری طرح اپنا حکم چلاتا ہے ایسا کیوں ہے اس کے بارے محترمہ انوشہ رحمن کو قوم کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکا جو بھارت کر رہا ہے ۔ بھارت اور اسرائیل نے حال ہی میں فیس بک انتظامیہ سے بات چیت کر کے کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے بارے اپ لوڈ ہونے والے مواد کو لگانے والے سینکڑوں فیس بک آئی ڈی بلاک کروا دیئے ہیں مگر ہماری بدقسمتی کا عالم دیکھئے ہم آقائے دو جہاں کی بے حرمتی کی ناپاک اور ناکام سازش کرنے والوں کو نہ خود روک سکتے ہیں نہ کسی عالمی ادارے سے دباؤ ڈال کر ایسا کروا سکتے ہیں۔ہماری بے بسی اور بے حسی کا کھیل کب تک جاری رہے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس لڑائی میں ہم سوشل میڈیا سے ہی محروم ہو جائیں۔