دنیا کا وہ چڑیا گھر جہاں انسانوں کو پنجرے میں بند کردیا گیا

دنیا کا وہ چڑیا گھر جہاں انسانوں کو پنجرے میں بند کردیا گیا
دنیا کا وہ چڑیا گھر جہاں انسانوں کو پنجرے میں بند کردیا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) چڑیا گھروں میں انواع و اقسام کے جانور رکھے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ جنگلی حیات کو کسی حد تک جاننے اور قریب سے دیکھنے کا موقع حاصل کرتے ہیں لیکن آپ یہ جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ آج انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار امریکہ اور یورپی ممالک میں انسانوں کے چڑیا گھر بھی ہوتے تھے اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، محض 60سال پہلے تک یہ چڑیا گھر موجود تھے جن میں سیاہ فام اور ایشیائی باشندوں کو پنجروں میں قید کیا جاتا تھا اورلاکھوں کی تعداد میں گورے ٹکٹ خرید کر انہیں دیکھنے آتے تھے۔ میل آن لائن نے اپنی رپورٹ میں 1958ءمیں نیویارک، برسلز، برلن، سینٹ لوئس اور دیگر امریکی و یورپی شہروں میں موجودایسے ہی چڑیا گھروں کی تصاویر شائع کی ہیں جنہیں دیکھ کرکوئی بھی شخص لرز کر رہ جائے کہ ابھی کل تک انسانیت کیسی بے کسی کی زندگی گزاررہی تھی۔

سوتیلی ماں نے 4 سالہ بیٹے کی آنکھیں ہی نکال دیں، وجہ ایسی کہ آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئیں گے
رپورٹ کے مطابق ان مقید سیاہ فام اور ایشیائی باشندے اپنے بچوں سمیت پنجروں میں قید رہتے۔ ان کے جسم پر لباس برائے نام ہوتا تھا۔ چڑیا گھروں کے علاوہ ان کی نمائشوں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا جو لاکھوں کی تعداد میں گورے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتی تھیں۔1906ءمیں نیویارک کے ’برونکس زو‘ (Bronx Zoo)نامی انسانی چڑیا گھر میں سینکڑوں ایشیائی و سیاہ فام باشندوں کی نمائش کا انعقاد کیا گیاجہاں ان سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ روزانہ تقریباً40ہزار سیاح ان لاچار قیدیوں کو دیکھنے آتے تھے۔ اس نمائش میں کانگو کے سیاہ فام باشندے اوٹا بینگا (Ota Benga)کو بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ ارتقاءکا مسنگ لنک (Missing link)ہے۔ آنے والے گورے اوٹا بینگا کا خوب تمسخر اڑاتے تھے۔ اس بے رحم نمائش پر کچھ لوگوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا جس پر اوٹا کو رہا کر دیا گیا لیکن اس نے لوگوں کے سلوک سے تنگ آ کر 6سال بعد خودکشی کر لی۔ ان انسانی چڑیا گھروں میں بڑے مردوخواتین کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی جانوروں کی طرح نمائش کے لیے پیش کیا جاتا اور ان سے انتہائی بے رحمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -