پاکستان کو جامع مذاکرات کی دعوت
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں کیونکہ افغانستان میں قیام امن سے براہِ راست پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ واشنگٹن میں امریکی نائب صدر مائیک پنس سے ملاقات کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان مخلصانہ اقدامات کر رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، جن میں افغان امن عمل اور دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ناصر جنجوعہ سے ملاقات کے بعد افغان صدر نے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم عباسی کو دورہ کابل کی دعوت بھی دی جس کا مقصد پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا آغاز ہے۔
ناصر جنجوعہ کے دورہ افغانستان کا فوری حاصل یہی دعوت ہے اور اگر اس کے جواب میں دونوں ملکوں میں جامع مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں تو اسے بہت بڑی کامیابی گردانا جائے گا۔ امن مذاکرات کے لئے خطے میں سفارتی کوششیں کافی عرصے سے جاری ہیں، جن میں حالیہ ہفتے کے دوران تیزی آ گئی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ ماہ افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے افغان حصے کی تعمیر شروع کرنے کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے افغانستان کو امن مذاکرات میں تعاون کا یقین دلایا تھا۔ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے نمائندوں نے جنوری میں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس دورے میں پاکستان نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ بین الافغانستان مذاکرات کا آغاز کریں، بعد میں طالبان نے امریکہ کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش بھی کی جس کے جواب میں امریکہ نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔
ان تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور افغانستان میں قیام امن ہی ہے اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کا دورہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ مقامِ مسرت ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے جامع مذاکرات کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے، ان مذاکرات کے نتیجے میں اگر افغانستان میں قیام امن میں مدد ملتی ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کا امن بہم دگر پیوست ہے، اگر افغانستان میں امن ہوگا تو اس کا نتیجہ پاکستان کے حق میں بھی بہتر نکلے گا۔ یہی بات واشنگٹن میں وزیراعظم عباسی نے کہی ہے کہ پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں، توقع کرنی چاہئے کہ صدر اشرف غنی کی دعوت پر وزیراعظم عباسی کا دورہ جلد ہوگا اور جامع مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔
امریکہ نے افغانستان میں امن کے لئے جو تازہ ترین پالیسی اختیار کی ہے اس کا انحصار قوت کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر ہے، لیکن افغان امور پر نظر رکھنے والے دنیا بھر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طاقت کا یہ اندھا استعمال افغانستان کے مسئلے کے حل میں مفید نہیں ہو سکتا، خود امریکہ کے اندر بہت سے ایسے دانشور موجود ہیں جو پاکستان کی قیام امن کے لئے کوششوں کے معترف اور امریکی صدر کی پالیسی کے معترض ہیں، امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بھی اپنے صدر سے اختلافات کے باعث ہی اپنے عہدے سے برطرف ہوئے ہیں، اس عرصے میں وہ صدر ٹرمپ کو اس بات پر قائل نہ کر سکے کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل امریکہ کے مفاد میں ہے۔ سابق صدر اوباما متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اس ڈیل سے ایٹمی عدم پھیلاؤ میں مدد ملے گی لیکن صدر ٹرمپ ہر قیمت پر یہ ڈیل ختم کرنے یا کم از کم اس میں ترمیم پر تلے ہوئے ہیں جبکہ اس ڈیل میں شامل پانچ دوسرے یورپی ممالک کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں اور پچھلے دنوں ایران نے ان ملکوں سے اپیل بھی کی تھی کہ وہ امریکہ کو یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے یا ترامیم کی کوششوں سے روکیں۔ افغان طالبان اگر اس موقع پر امریکہ کو مذاکرات کی پیش کش کر رہے ہیں تو اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت طالبان کو سیاسی قوت تسلیم کرتی ہے اور اس کے ساتھ مذاکرات پر بھی آمادہ ہے تاہم افغان طالبان کی بعض شرائط اسے قبول نہیں لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کے تعاون کے بغیر کابل میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
افغان صدر اشرف غنی اور اُن کے پیش رو حامد کرزئی دونوں ہی کا طرزعمل ایسا رہا ہے کہ وہ کبھی تو پاکستان کے ساتھ اظہار محبت شروع کر دیتے ہیں لیکن اُن کا رویہ بدلتے بھی دیر نہیں لگتی۔ جب کرزئی پر محبت کا غلبہ ہوتا تھا تو کہا کرتے تھے کہ علاقے کے ملکوں میں ایسے اچھے تعلقات ہونے چاہئیں کہ وہ کابل سے ناشتہ کرکے بذریعہ سڑک چلیں تو دوپہر کا کھانا اسلام آباد میں اور رات کا کھانا دہلی میں جا کر کھائیں، لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان پر افغان امور میں مداخلت کا الزام لگا دیتے اور مزید آگے بڑھ کر یہ کہہ دیتے کہ پاکستان افغانستان کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے لیکن جب ان کا اپنا دل چاہتا تو اشرف غنی کے ساتھ گلبدین حکمت یار کا استقبال کرنے کابل پہنچ جاتے۔ اشرف غنی بھی بعض اوقات ایسا ہی ناقابلِ فہم طرزِعمل اپنا لیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید وہ بھارت نواز عناصر ہوں جو افغان حکومت میں شامل ہیں اور خود بھارتی حکومت بھی افغان صدر کو پاکستان کے خلاف انگیخت کرتی رہتی ہے لیکن اس بات کی تفہیم ضروری ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات کو ختم کرکے تعاون کے راستے پر چلیں تو دونوں ملکوں کا فائدہ ہے بلکہ افغانستان اس سے دوہرا مفاد حاصل کر سکتا ہے۔ ایک تو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پشتو بولنے والے قبائل آباد ہیں جن کی آپس میں رشتے داریاں بھی ہیں، اگر دونوں ملکوں میں تعلقات خوشگوار ہوں تو اس کا فائدہ سرحد کے دونوں طرف آباد ان لوگوں کو ہوگا، پچھلے دنوں ڈاکٹر اشرف غنی نے افغان مہاجرین کو دو سال میں واپس لے جانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد اس وقت بھی پاکستان میں رہ رہی ہے، اگر یہ مہاجرین اپنے وطن واپس چلے جاتے ہیں تو جو افغان باشندے مہاجرین کے پردے میں پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں، اُن کا کام مشکل ہو جائے گا۔ پچھلے دنوں ایسے افغان باشندے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے جن کے سہولت کار اور مقامی طور پر تعاون کرنے والے سب افغان باشندے تھے، یہ تمام مسائل جامع مذاکرات میں زیر بحث لا کر حل کئے جا سکتے ہیں، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ جلد سے جلد مذاکرات کا آغاز ہو تاکہ دونوں ملکوں میں پائیدار امن قائم ہو سکے اور جو طاقتیں امن کی دشمن ہیں اُن کے عزائم ناکام بنائے جا سکیں۔