نگران وزیراعطم پر حکومت اور اپوزیشن لیڈر کا اتفاق رائے آسانی سے نہیں ہوسکے گا
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
وزیر داخلہ احسن اقبال کا خیال ہے کہ عبوری حکومت کے معاملے پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔ احسن اقبال انتہائی اہم وزارت کے منصب پر متمکن ہیں اس لئے ان کے پاس لازماً ایسی اطلاعات ہوں گی جن کی بنیاد پر انہوں نے اس خوش گمانی کا اظہار کیا ہے لیکن جو لوگ بدگمان ہیں ان کے پاس بھی تو کچھ معلومات ہوں گی۔ موجودہ حکومت کے پاس اب دو ماہ اور دس دن کا عرصہ باقی رہ گیا ہے زیادہ سے زیادہ 31 مئی تک یہ حکومت موجود ہے۔ جب قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی نئے انتخابات کیلئے نگران وزیراعظم کا تقرر کرنا پڑتا ہے جو اپنی عبوری حکومت بناتا ہے۔ سابقہ عبوری حکومت کے دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ نگران وزیراعظم ریٹائرڈ جسٹس میر ہزار خان کھوسو کو بنا دیا گیا جو اپنی عمر کے تقاضے کے تحت زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کرسکتے تھے، غالباً یہی ان کا میرٹ تھا۔ اسی طرح کابینہ میں ایسے ایسے لوگوں کو اقتدار کا جھولا جھولنے کا موقع مل گیا جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ کبھی وفاقی وزیر بھی بن سکتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں چونکہ اقتدار کے ہما کو پکڑ کر کسی کے بھی سر پر بٹھایا جاسکتا ہے اس لئے نگران حکومت میں کئی لاٹریاں بھی نکل آئیں۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا ہم عرض یہ کرنا چاہتے تھے کہ وزیر داخلہ احسن اقبال کی اس خوش گمانی کہ نگران وزیراعظم پر اتفاق ہو جائے گا کی وجہ وہ معلومات ہوں گی جو انہیں حاصل ہیں لیکن عام خیال یہی ہے کہ یہ انتہائی مشکل کام ہوگا کیونکہ اگر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان کسی شخصیت کے نام پر اتفاق ہوگیا تو پھر عین ممکن ہے جوبہت سے لوگ اس منصب کیلئے کوشاں ہیں ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ بدگمانی کرنے والوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان نگران وزیراعظم کے نام پر اول تو اتفاق ہو ہی نہیں سکے گا اور اگر ہوا تو پھر یہ کوئی ایسا نام ہوگا جسے ڈارک ہارس کہا جاتا ہے جس طرح صادق سنجرانی کا نام چیئرمین سینیٹ کیلئے اچانک آیا جو کبھی کسی صوبائی اسمبلی کے رکن نہیں رہے براہ راست چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ اسی طرح عین ممکن ہے کوئی شخصیت وزیراعظم بن کر سب کو حیران کردے۔ یہ بھی امکان ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین یا شریک چیئرمین اپنے قائد حزب اختلاف کے کان میں جو کہہ دیں گے وہی فیصلہ ہو جائے گا۔ اگر یہ نام وزیراعظم کیلئے قابل قبول نہ ہوا تو پھر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا اور اگر پارلیمانی کمیٹی بھی فیصلہ نہ کرسکی تو پھر الیکشن کمیشن ہی فیصلے کا مجاز ہوگا کیونکہ یہ آخری مجاز ادارہ ہوگا چونکہ اس کے بعد کوئی اور سیڑھی نہیں جو چڑھنی پڑے اس لئے الیکشن کمیشن کے پاس جو نام جائیں گے انہی میں سے کسی ایک خوش نصیب کے سر پر نگران وزیراعظم کا سہرا سج جائے گا۔
قارئین محترم کو یاد ہوگا گزشتہ کچھ عرصے سے یہ مہم چل رہی ہے کہ ٹیکنو کریٹس کی ایک ایسی حکومت بنائی جائے جو الیکشن وغیرہ کو بالائے طاق رکھ کر پہلے احتساب کرے اور اس احتساب میں کوئی ایسی جادوگری دکھائے کہ بہت سے ناپسندیدہ لوگ الیکشن کی دوڑ ہی سے باہر ہو جائیں۔ جس کسی کے بارے میں شک ہو کہ وہ ذرا زیادہ ضدی ہے اور ملکی مفاد کے نام پر دیئے جانے والے دلائل پر آسانی سے قائل نہیں ہوتا اسے الیکشن سے پہلے ہی نکال دیا جائے، یہ سلسلہ اگر دو چار سال بھی جاری رہتا ہے تو مضائقہ نہیں کیونکہ الیکشن سے زیادہ وہ احتساب ضروری ہے ورنہ تو لاہور، چکوال، لودھراں اور سرگودھا کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ اگر ایسے ہی نتائج عام انتخابات میں آنے کی امید ہوئی تو کوئی رسک نہیں لیا جائے گا اور نگران حکومت کا دورانیہ طویل تر بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ مطالبہ تو جنرل (ر) پرویز مشرف نے کر بھی رکھا ہے جن کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ سے یہ اجازت لی جاسکتی ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔ یہ پروگرام خفیہ نہیں ہے عرصے سے باخبر اینکر حضرات بڑھ چڑھ کر اس کیلئے ایسے ایسے دلائل لا رہے ہیں کہ آدمی اس بقراطی پر حیران رہ جاتا ہے۔ ویسے یہ نگران وزیراعظم کا تصور بھی جمہوری دنیا میں بہت اجنبی اجنبی سا ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری ملکوں میں جو حکومت پہلے سے موجود ہوتی ہے وہی انتخابات کراتی ہے اور حکومت ہار بھی جاتی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں بھارت میں کبھی کانگریس کی حکومت ہوتی ہے اور کبھی بی جے پی کی۔ 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس بری طرح ہار گئی تھی حالانکہ انتخابات اس کی اپنی حکومت میں ہو رہے تھے۔ برطانیہ میں عہدے پر موجود وزیراعظم انتخاب ہار بھی جاتا ہے اور جیت بھی جاتا ہے بلکہ کسی اصولی مسئلے پر اگر عوام کا فیصلہ مختلف ہو تو وزیراعظم کوئی وقت ضائع کئے بغیر استعفا بھی دے دیتا ہے۔ بریگزٹ کے معاملے پر ڈیوڈ کیمرون کو شکست ہوئی، ان کا خیال تھا کہ عوام ریفرنڈم میں ان کے حق میں فیصلہ کریں گے لیکن فیصلہ ان کے خلاف آگیا تو انہوں نے اگلے ہی دن استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہیں لیکن عوام کا فیصلہ اس کے برعکس ہے اس لئے یونین سے نکلنے کیلئے برطانیہ کو نیا لیڈر چاہئے چنانچہ ان کی جگہ تھریسا مے وزیراعظم بن گئیں جن کا تعلق ڈیوڈ کیمرون کی پارٹی ٹوری سے ہے، جسے ایوان میں اکثریت حاصل تھی لیکن انہوں نے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ کوئی نگران وزیراعظم نہیں بنا، کوئی عبوری حکومت تشکیل نہیں پائی، تھریسا مے ہی وزیراعظم رہیں اس کے باوجود ان کی نشستیں پارلیمنٹ میں کم ہوگئیں اگرچہ وہ اب تک وزیراعظم ہیں لیکن ابھی تک بریگزٹ کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا البتہ لیبر پارٹی نے بہت سی اہم نشستیں جیت لی ہیں۔ یہ سب کچھ تھریسا مے کی اپنی وزارت عظمیٰ میں ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں پاکستان میں نگران وزیراعظم کا تجربہ کیوں کرنا پڑا حالانکہ دنیا کے بڑے بڑے جمہوری ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا اگر کہیں ہوتا ہے تو وہ بھی کوئی غیر معروف جمہوری ملک ہوگا۔ چلیے یہ تجربہ کرنا بھی اگر ضروری تھا تو کیا اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایسا شخص لایا جائے جو معمول کی زندگی بھی نہ گزار رہا ہو اور اس کے شب و روز کے معمولات عمر رسیدگی کی وجہ سے متاثر ہوگئے ہوں لیکن ہماری جمہوریت چونکہ بہت نازک اندام ہے اس لئے ہم ایسے تجربات کرتے رہتے ہیں تاکہ اس نازک اندام حسینہ کو اغوا نہ کرلیا جائے اس کے باوجود یہ ہر عشرے میں ایک بار اغوا ہو جاتی ہے اور اگر اغوا سے بچ جائے تو شرمائی لجائی رہتی ہے بس گھونگٹ اوڑھے محتاط نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتی رہتی ہے احتجاج بھی نہیں کرتی۔
نگران وزیراعظم