عقیدہ ختم نبوت اور عدالتی فیصلہ
عقیدہ ختمِ نبوت اسلام کی اساس ہے، اسی کے باعث اُمتِ مسلمہ کا تشخص وجود پذیر ہوتا ہے اور اس کے نہ ماننے سے یہ تشخص ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ اگر نبی محتشم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور شخص کو کوئی بھی فرد نبی تسلیم کرتا ہے تو وہ اسلام کا کلمہ پڑھنے کے باوجود دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس حوالے سے ختمِ نبوت کا عقیدہ کسی بھی مسلمان کے ایمان کا جزوِ لاینفک ہے۔عقیدہ توحید کے بعد یہی اس کی روح ہے، اور اسی سے اس کی شناخت بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کی اُمتِ مسلمہ نے ہر دور میں اس عقیدے کی حفاظت کے لئے بے پناہ حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے کسی بھی دعوے دار کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ اسے اسلام میں نقب زنی کا مرتکب گردان کر اسے مرتد اور غیر مسلم قرار دیا ہے۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسلام کی چودہ سو سال سے زائدکی تاریخ میں اُمتِ مسلمہ نے عقیدۂ ختم نبوت کو ہمیشہ عزیز از جان رکھا ہے ، اور اس کی حفاظت کے لئے کبھی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلامی ریاست کے کئی ایک مشکلات میں گھرے ہونے کے باوجود مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے فتنے کی سرکوبی کے لئے لحظہ بھر کا تامل بھی گوارا نہ کیا اور وہ اس کی مکمل سرکوبی تک ایک لمحہ کے لئے بھی چین سے نہ بیٹھے۔ بعد کے ادوار میں بھی اُمت اسی اسوۂ صدیقی کی پیروکار رہی، یہاں تک کہ برصغیر میں برطانوی سامراج کی حکم رانی کے دور میں اس کی خود کاشتہ نبوت اور نبی ہونے کے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کو برداشت نہیں کیا گیا اور علمی محاذ پر اسے شکست فاش سے دو چار کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کا ر لاتے ہوئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی اسلامیانِ پاکستان نے اپنی جدوجہد جاری رکھی، اس مقصد کے لئے تحریکیں برپا کیں اور1974ء میں ایک بے مثال تحریک کے ذریعے وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔
اس تاریخی اور عظیم الشان فیصلے کے بعد جب کبھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم یا اس کے بعد امتناع قادیانیت آرڈی ننس اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین و ضوابط کو تبدیل کرنے یا ان کی تنسیخ کی سازش کی گئی تو اسلامیانِ پاکستان مردانہ وار سڑکوں پر اُمڈ آئے اور انہوں نے سازشیوں کو عبرت ناک انجام سے دو چار کر دیا۔ چندہ ماہ قبل ن لیگی حکومت نے ایک سازش کے تحت انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کی آڑ میں عقیدہ ختم نبوت سے چھیڑچھاڑ کرنے کی کوشش کی، حلف نامہ کے الفاظ تبدیل کر دیئے گئے اور اسے کچھ یوں غیر مؤثر کرنے کی سازش کی گئی کہ بالآخر قادیانیوں اور ان کے مغربی آقاؤں کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہو جائے۔ قادیانیوں کے حوالے سے مغربی طاقتوں کا پاکستان پر ہمیشہ دباؤرہا ہے ، اس لئے کہ قادیانیت برطانوی سامراج کا خود کاشتہ پودا ہے اور اس کی مسلسل آبیاری کے ذریعے اسلام دشمن مغربی طاقتیں، اسلام کا حلیہ..... نعوذ باللہ..... مسخ کرنے اورعالمِ اسلام میں نقب زنی کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ قادیانیوں کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر انہیں یہ اہداف حاصل کرنے میں بے پناہ سہولت حاصل ہو جاتی ہے، اس لئے وہ قادیانیت اور قادیانیوں سے متعلقہ آئینِ پاکستان کی شقوں اور قوانین کو تبدیل یا کالعدم کروانے کے لئے ہمیشہ سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔
جن دنوں ن لیگی حکومت نے متذکرہ بالا ترمیمی بل کے ذریعے عقیدۂ ختم نبوت سے متعلقہ حلف نامے کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش کی، ان دنوں اس حکومت کے نااہل قائد میاں محمد نواز شریف شدید اندرونی دباؤ کا شکار تھے، اس لئے وہ مغربی دباؤ کو برداشت نہ کر سکے اور مبینہ طور پر انہوں نے وہ کچھ کروا دیا جسے کرنے کے لئے سابقہ حکم ران بھی کسی حد تک تیار ہو جاتے تھے لیکن عقیدۂ ختم نبوت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا حوصلہ نہیں کر پاتے تھے۔ ن لیگی حکومت نے وقتی طو رپر یہ کر ڈالا لیکن بالآخر اسے منہ کی کھانی پڑی اور اب یہ سب کچھ کروانے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہیں۔
عوامی سطح پر ہونے والے شدید ردِ عمل نے ن لیگی حکومت کو تو پسپائی پر مجبور کر دیا، خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے بھی اس حوالے سے بڑا جرأت مندانہ کردار اد اکیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معززو محترم جج جناب شوکت عزیز صدیقی نے عقیدۂ ختم نبوت سے متعلقہ ایک مقدمہ میں جو تفصیلی فیصلہ (9مارچ 2018ء کو) جاری کیا ہے ، وہ اسلامی غیرت و حمیت کا شاہ کار ہے۔ قومی پریس میں اس فیصلے کی خبر یوں شائع ہوئی ہے۔
’’اسلام آباد ہائی کورٹ نے ختم نبوت کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے ، ختم نبوت ہمارے دین کی اساس ہے، اس کی حفاظت ہر مسلمان پر لازم ہے۔مردم شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والوں کی تعداد خوفناک ہے۔ شناختی دستاویزات میں مسلم اور غیر مسلم کی مذہبی شناخت ضروری ہے۔ جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ختم نبوت کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دینِ اسلام اور آئینِ پاکستان کے تحت غیر مسلم اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں اور ریاست پر لازم ہے کہ اقلیتوں کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ختم نبوت ہمارے دین کی اساس ہے اور اس کی حفاظت پر مسلمان پر فرض ہے۔ پارلیمنٹ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے۔ حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ تمام شہریوں کے کوائف درست ہیں جبکہ نادر ا ریکارڈ اور مردم شماری کے اعداد و شمار میں فرق کی تحقیقات کی جائیں۔ عدالتی حکم نامے کے مطابق مرد م شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والوں کی تعداد خوفناک ہے۔ہر پاکستانی شہر ی کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی درست شناخت بتائے ۔ اپنی شناخت چھپانے والا شہری ریاست کے ساتھ دھوکا دہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ شناختی دستاویزات میں مسلم اور غیر مسلم کی مذہبی شناخت ضروری ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف موجود ہے، اس تعریف پر مبنی بیانِ حلفی لازمی قرار دیا جائے۔ نادرا اور دیگر متعلقہ ادارے شناختی کارڈ، برتھ سرٹیفکیٹس ، انتخابی فہرستوں اور پاسپورٹ بنوانے والوں سے مذہبی بیان حلفی لیں اور نادرا شہریوں کے لئے مذہب کی درستی کرانے کے لئے ایک مدت کا تعین کرے۔ عدلیہ، مسلح افواج ، سرکاری ، نیم سرکاری، حساس اداروں اور اعلیٰ سول سروس کے لئے بیان حلفی لیا جائے ۔ اسلامیات اور دینیات کا مضمون پڑھانے کے لئے مسلمان اساتذہ کی شرط لازمی قرار دی جائے۔‘‘(روزنامہ نئی بات ، فیصل آباد۔10مارچ2018ء)
فاضل جج نے کئی ایک زاویوں سے بڑے اہم نکات کے بارے میں واضح فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ ایک اسلامی ریاست کو اس فیصلے میں دیئے گئے تمام امور کے بارے میں ٹھوس قانونی پیش رفت کرنی چاہیے۔ اس سب کچھ کا تقاضا آئین پاکستان کرتا ہے، اس لئے بدیہی طور پرحکومت کو اس ناطے سے اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے، عدالتی فیصلے کے بعد تو حکومتی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔ اگر ن لیگی حکومت اور اس کی قیادت کو دنیا و آخرت کی کامیابی مطلوب ہے تو اسے یہ کام فوری طو رپر کر گرزنا چاہیے وگرنہ ذلت و رسوائی سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔