’شادی کے 14سال بعد شوہر کی موت ہوگئی تو تمام رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور یہ کام شروع کردیا۔۔۔‘ یہ بہادر پاکستانی خاتون پچھلے 30 سال سے کس طرح اپنے 6 بچوں کا پیٹ پال رہی ہے؟ حقیقت جان کر آپ بھی بے اختیار انہیں سلیوٹ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے

’شادی کے 14سال بعد شوہر کی موت ہوگئی تو تمام رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن ...
’شادی کے 14سال بعد شوہر کی موت ہوگئی تو تمام رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور یہ کام شروع کردیا۔۔۔‘ یہ بہادر پاکستانی خاتون پچھلے 30 سال سے کس طرح اپنے 6 بچوں کا پیٹ پال رہی ہے؟ حقیقت جان کر آپ بھی بے اختیار انہیں سلیوٹ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حیدرآباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے تو آپ نے بہت کچھ سنا ہو گا لیکن یہ خواتین زندگی کی مشکلات سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہیں اور اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو کیسے اپنے عزم و ہمت سے پاش پاش کر دیتی ہیں اس کا ذکر کم کم ہی سننے کو ملتا ہے۔ ویب سائٹ dawn.com کے ایک خصوصی مضمون میں ایک ایسی ہی باہمت خاتون کی زندگی کا احوال بیان کیا گیا ہے جس نے عین جوانی کے عالم میں بیوہ و بے سہارا ہو جانے کے باوجود اپنے چھ بچوں کو باعزت طریقے سے پالنے کے لئے وہ کر دکھایا جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
مضمون نگار اس باہمت خاتون کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” ہماری ٹیکسی ایک اشارے پر رُکتی ہے اور ایک لڑکا پیلا کپڑا لئے اس کی جانب بڑھتا ہے۔ گاڑی چلانے والی خاتون اس لڑکے پر چلاتی ہے ’چل بھاگ!‘ اور پھر میری طرف مُڑ کر کہتی ہے ’یہ اس کام کے 10 روپے چاہتا ہے۔‘ پھر وہ ایک پولیس والے کی جانب دیکھتے ہوئے کہتی ہے ’ان کے ساتھ میرا پیار اور نفرت کا رشتہ ہے، میں بتاتی ہوں کیسے۔‘ یہ خاتون ڈرائیور 67 سالہ بشیراں ہے جو گزشتہ 30 سال سے ٹیکسی چلارہی ہے اور حیدر آباد کی واحد ٹیکسی ڈرائیور ہے۔


بشیراں نے اپنی زندگی کی کہانے سناتے ہوئے مجھے بتایا ”میری شادی نوعمری میں ہی ہوگئی تھی۔ میرا خاوند پولیس اہلکار تھا اور اپنے فارغ وقت میں ٹیکسی بھی چلاتا تھا۔ اس کے اصرار پر میں نے ٹیکسی چلانا سیکھی لیکن کسے معلوم تھا کہ وہ دنیا سے چلا جائے گا اور مجھے ٹیکسی چلا کر زندگی کی گاڑی کھینچنا ہوگی۔
جب میرے خاوند کی وفات ہوئی تو سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں سوچتی تھی کہ چھ بچوں کو پالنے کے لئے میں کیا کروں گی۔جب اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو میں نے ٹیکسی چلانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے میں نے حیدرآباد سے کوٹری روٹ پر ٹیکسی چلانا شروع کی۔ میں نوجوان اور خوبرو تھی او ر ہر جگہ لوگ مجھے عجیب نظروں سے گھورتے تھے۔ شرو ع میں مَیں بہت خوفزدہ ہوتی تھی لیکن میں نے یہ نغمہ سن رکھا تھا ”اے دل تجھے قسم ہے ہمت نہ ہارنا“ اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں حالات سے لڑوں گی۔“


بشیراں ٹیکسی بھی چلاتی تھی او رفارغ اوقات میں کپڑے سی کر بھی کچھ رقم کماتی تھی۔ جب 1988ءمیں سندھی مہاجر فسادات شروع ہوئے تو ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور ٹیکسی بھی چھین لی گئی۔ بعدازاں انہوں نے کرائے پر دو ٹیکسیاں حاصل کیں اور پھر سے محنت کر کے اپنا نیا گھر بھی بنایا۔ اس وقت تک ان کے دو بڑے بیٹے بھی ڈرائیونگ کے قابل ہوچکے تھے۔ بدقسمتی سے ان کے بیٹے شادیاں ہوتے ہیں الگ ہو گئے اور اپنی ماں کے احسانات بھی بھلا بیٹھے۔
بشیراں کو اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے بیٹے کسی کام کے نہیں نکلے، جیسے ہی وہ جوان ہوئے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ زندگی بھر کی محنت کے بعد یہ عظیم ماں ایک بار پھر تنہا ہے، لیکن اس کی ہمت نہیں ٹوٹی۔وہ آج بھی صبح چار بجے اُٹھتی ہیں، نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد لطیف آباد نمبر 10 سٹاپ کے لئے روانہ ہوجاتی ہیں۔ وہ آج بھی ٹیکسی چلا کر اپنی زندگی کی گاڑی انتہائی عزت اور وقار کے ساتھ کھینچ رہی ہیں۔