نقصان دہ فیصلہ ثابت ہوگا
نیوزی لینڈ میں پچاس انسانوں کو نشانہ بنا کر اندھا دھند فائرنگ سے ان کی زندگیاں ختم کرنا ، مغرب اور اس کے میڈیا کی نظر میں حملہ آور کی کارروائی قرار دی جارہی ہے ۔ مساجد دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔
حالانکہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اسے دہشت گردی قرار دے رہی ہیں ۔ مغرب ہو یا بھارت اسے پاکستان ہی دہشت گرد ملک نظر آتا ہے۔
پاکستان میں کسی قسم کا بھی حملہ ہو وہ دہشت گردی قرار پاتا ہے۔ کیسا انوکھا امتیازی سلوک ہے؟ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ہر کارروائی کے بعد مزید کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہر مرتبہ پاکستان کسی نہ کسی سبب دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں نام نہاد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی میں حکومت نے ایسی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کر دی ، جن کا کسی حالت میں دہشت گردی سے تعلق نہیں رہا ہے۔ صوبہ سندھ میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کام کر رہی تھی۔
تنظیم نے تھرپارکر جیسے مسائل کے انبار میں گھرے علاقے میں اسپتال ، مدرسے ، مساجد ، وغیرہ قائم کئے ساتھ ہی ساتھ ایسے دور دراز دیہی علاقوں میں جہاں حکومت پانی نہیں پہنچا سکی ہے، کھارے اور کڑوے پانی کو میٹھا کرنے کے آر او پلانٹ نصب کئے۔
ان کی بدولت بعض علاقوں میں لوگ پینے کے لئے پانی حاصل کرنے کے علاوہ آر او سے ملنے والے پانی سے کاشت کاری بھی کررہے ہیں، کئی علاقوں میں تو تنظیم نے آر او پلانٹ نصب کرنے کے بعد لوگوں کو ہی ذمہ دار بنادیا تاکہ وہ ان کی دیکھ بھال کرسکیں ۔
حیدرآباد جیسے بڑے شہر میں جہاں سرکاری اسپتالوں میں نومولود کمزور بچوں کی پرورش کے لئے انکیوبیٹر موجود نہیں ہیں، تنظیم نے ایک جنرل اسپتال میں زچہ خانہ قائم کیا جہاں کم خرچے پر زچگی کے علاوہ ان بچوں کی دیکھ بھال کے لئے انکیوبیٹر رکھے گئے ہیں، یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس نے لوگوں کو سہولتوں اور خوشحالی کی طر ف گامزن کیا ہے۔ ایک اچانک فیصلہ سب کچھ تبدیل کر د ے گا۔
حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں ان تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والے اسپتال ، مدرسے ، مساجد ، اسکول وغیرہ بحق سرکار ضبط کر لئے گئے ہیں اور مختلف سرکاری محکموں کے افسران کو ان کی نگرانی کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ سرکاری افسران سے پہلے سے ان کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا نہیں ہو رہی ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ افسران ان اداروں کا کیا حشر کریں گے۔
جنرل ایوب خان نے اپنے مار شل لاء کے دوران معروف درگاہوں کا کنٹرول لے لیا تھا اور انتظام چلانے کے لئے محکمہ اوقاف قائم کیا گیا تھا ۔
آج صورت حال یہ ہے کہ ہر روز نذرانوں اور چندوں میں اضافے کے باوجود ان درگاہوں کے نظام کو چلانے اور محکمے کے ملازمین کی ٹنخواہوں کی ادائیگی کے لئے حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ درگاہوں پر استعمال ہونے والی بجلی کے بل وقت مقررہ پر جمع نہیں کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی فراہمی منقطع کر دی جاتی ہے۔
درگاہوں کی دیکھ بھال بھی سابق گدی نشیوں کی نظر میں اطمینان بخش نہیں ہے۔ حکومت نے قیام پاکستان کے بعد نئے ملک پاکستان سے بھارت منتقل ہوجانے والوں کی چھوڑی ہوئی جا ئیدادوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لئے وقف جائیدادوں کا ادارہ قائم کیا ہوا ہے، اس ادارے نے جو گل کھلائے ہیں۔ انہیں سن اور دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ان جائیدادوں کو کس بے دردی سے فروخت کیا گیا، قبضے کرائے گئے۔
یہ ساری افسران کی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ مندر، دھرم شالہ، مسان، مسافر خانے، کاشت کاری کی زمینیں، وغیرہ ، محفوظ نہ رہ سکے۔ آج تک لوٹ مار جاری ہے۔ یہ کیسی نگرانی اور دیکھ بھال ہے؟ یہ بتانا مطلوب ہے کہ سرکاری افسران سے نگرانی اور دیکھ بھال کا کام نہیں ہو سکتا ہے۔ فلاحی تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کو ان کے سپرد کرنا ، ان اداروں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
حکومت نے ان اداروں کو چلانے کے لئے کوئی نظام قائم کیا ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی یا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مدرسوں کے بچوں کے طعام ، اسپتالو ں میں دوائی اور دیگر اخراجات ، مساجد میں امام اور موذّن صاحبان کی تن خواہوں، بجلی، گیس وغیرہ کا انتظام کیسے ہوگا۔
یہ تنظیمیں تو مخیر حضرات کے زر تعاون سے کام کر رہی تھیں، وہ مخیر کسی سرکاری ادارے کو چندہ کیوں ادا کریں گے۔ یہ بنیادی طور پر جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ ہے ۔جس میں حکومت کا خوف عیاں ہے۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان تنظیموں یا اداروں کا انتظام جو افراد چلارہے ہیں، انہیں ہی حکومت کے ماتحت کردیا جاتا، اور انہیں اپنا انتظام چلانے کے لئے با اختیار کیا جاتا۔اس طریقہ سے یہ ادارے جن سے مخلوق خدا مستفید ہورہی ہے۔
ان اداروں کا بند ہونا یا ان کے کاموں میں خلل لوگوں کو سہولتوں سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت سندھ کی تجویز زیادہ قابل عمل ہے کہ حکومت ان اداروں کی مانیٹرنگ کرے گی۔ حکومت کی اس تجویز کی صورت میں وفاقی حکومت بھی زیر بار نہیں آئے گی۔