کیا ہم بحیثیت قوم چور ہیں؟

کیا ہم بحیثیت قوم چور ہیں؟
کیا ہم بحیثیت قوم چور ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور کے ایک ریسٹورنٹ پر گاہکوں کے سامنے کھانے کے جو برتن رکھے جاتے ہیں۔ ان پر ایوان صدر آزادکشمیر کی مہر ثبت ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ برتن ایوان صدر سے کسی نے چوری کر کے فروخت کیے ہیں۔

جب ریسٹورنٹ انتظامیہ سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ برتن آپ تک کیسے پہنچے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے تو ان کی قیمت ادا کی ہے۔ اور جس دورانیے میں یہ برتن خریدے گئے تھے اس وقت آزادکشمیر میں سردار یعقوب خان مسند صدارت پر براجمان تھے۔

اب کم از کم یہ خاک نشین تو ہر گز نہیں سوچ سکتا کہ یہ برتن سردار یعقوب خان نے فروخت کیے ہوں گے۔ میرے خیال میں یہ ایوان صدر کے کسی ملازم کی کارستانی ہو سکتی ہے،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایوان صدر نے استعمال کے بعد یہ کراکری ازکار رفتہ قرار دے دی ہو اور وہ کسی طرح ریستوران میں پہنچ گئی ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس حد تک بددیانت اور بدعنوان ہو چکے ہیں۔ کہ اپنے اعلی ایوانوں سے بھی چوریاں کرنے سے نہیں چوکتے؟ کیا ہمارے ان ایوانوں میں بیٹھے لوگ اور ان کے ملازم اس حد تک بھی گر سکتے ہیں کہ کھانے کے برتن تک بازار میں بیچ دیں؟ اس سے پہلے پاکستان کے ایک وزیر اعظم کی بیوی سے قومی خزانے میں ترکی کی طرف سے دیا گیا تحفہ برآمد ہو چکا ہے۔

جو پوری دنیا کے سامنے ہمارے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن گیا تھا۔ ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کویت سے آئے ہوئے ایک اعلی سطح کے وفد کے ایک رکن کا پرس چوری ہو گیا تھا۔ جس میں کویتی دینار کی صورت میں بہت بڑی رقم تھی۔ اور بعد ازاں وہ پرس پاکستان کے ایک وفاقی افسر سے برآمد ہوا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب چوری سب سے معیوب برائی سمجھی جاتی تھی اور چوری جیسے قبیح فعل کا مرتکب صرف وہ لوگ ہوتے تھے جو انتہائی غریب اور بے روزگار ہوتے تھے۔

وہ بھی پکڑے جانے پر لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے پیٹ کے دوزخ کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا کیا ہوتا تھا، جبکہ آج کے دور میں جتنا بڑا اسٹیٹس ہوتا ہے اتنا ہی بڑا چور، لوگ حکومت اور بیوروکریسی میں جاتے ہی اس نیت سے ہیں کہ اوپر کی کمائی ہوگی۔

جب ملک کا بالائی طبقہ اس قدر بدعنوانی میں لتھڑا ہوگا تو پھر عام آدمی مواقع ملنے پر کیونکر پیچھے رہے گا۔ اس طرح وطن عزیز میں ایک ایسا ماحول بن چکا ہے۔ کہ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق بدعنوانی میں ہاتھ رنگ لیتا ہے۔

لوگوں میں لالچ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ان کی بھوک ختم ہی نہیں ہو سکتی۔ ملک کے تمام طبقات میں اکثریت بدعنوان لوگوں کی ہے۔ میڈیا ہو، یا سیاستدان، سرمائے دار ہو یا جاگیردار، صنعت کار ہو یا زمیندار، غریب ہو یا امیر ہر کوئی اپنی ذات کو اہمیت دیتا ہے۔ اور تمام فائدے اپنے لیے ہی چاہتا ہے۔ اب پاکستان میں بدعنوانی کے کئی ذرائع پیدا کر لیے گئے ہیں۔کھانے پینے کی اشیاء میں کئی طرح کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔
کیا اس ملک سے خوف خدا اٹھ گیا ہے۔ یا پھر حکومتیں اپنا اعتماد کھو چکی ہیں۔ یہ جو ایوان صدر کے برتنوں کا معاملہ ہے حکومت آزادکشمیر کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اور عوام پر بھی یہ راز افشا کیا جانا چاہیے کہ یہ برتن ایوان صدر سے لاہور کے ریستوران تک کیسے پہنچے ہیں۔

اگر ایوان صدر ایسی کوئی نیلامی بھی کرتا ہے تو وہ بھی عوام کو پتا ہونا چاہیے اور کوئی بھی چیز فروخت کرنے سے پہلے اس پر سے ایوان صدر کی مہر کو مٹایا جانا ضروری ہونا چاہیے۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجئے۔ چند ماہ قبل لاہور کے ایک بہت بڑے اور جدید شاپنگ مال میں مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس مال میں گو کہ سامان بہت مہنگا ہے، لیکن ان دکانوں میں کام کرنے والے انتہائی ایماندار اور اچھے اخلاق کے لوگ ہیں۔ گویا کہ وہ کسی یورپی ملک سے آئے ہیں۔

امپوریم میں کوئی گاہک اگر اپنی کوئی قیمتی چیز کسی دکان کے اندر بھول جائے تو وہ جتنے دن بعد آئے اس کو اپنی چیز واپس مل سکتی ہے۔ اس کا مشاہدہ اور تجربہ میرا ذاتی بھی ہے اور بہت زیادہ دوسرے لوگوں کا بھی۔ لازمی بات ہے کہ ان لوگوں کی تربیت ہوتی ہوگی، مگر اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہماری قوم کی تربیت ہو جائے تو یہ قوم بری نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے یا اداروں نے ہماری تربیت کرنی ہے۔

اگر وہ خود ہی چور ہوں گے تو پھر قوم کی تربیت کیسے ہوگی؟ میڈیا جو رائے عامہ بناتا ہے اس میں بھی اکثریت انہی لوگوں کی ہوگی جو صرف اپنے مفاد میں کام کرتے ہیں تو پھر ملک میں اچھی رائے عامہ کیسے بنے گی؟ موجودہ حکومت اگر واقعی نیا پاکستان، خوبصورت پاکستان، صاف شفاف پاکستان، ترقی یافتہ پاکستان، پر امن پاکستان اور طاقتور پاکستان چاہتی ہے تو اس کو سب سے پہلے قوم کی تربیت اور قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کے کام کرنے چاہئیں۔

اور یہ تب ہوگا جب ایوانوں میں سب صاف شفاف ہوگا۔ ہمارے بڑے اپنی ذات سے بالاتر سوچیں گے اور صرف ملکی مفاد میں کام کریں گے۔

مزید :

رائے -کالم -