کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکا کہ ہمارے زمانہ ء طالب علمی میں جو نصابی کتب ہوتی تھیں کیا ان کا مواد اتنا اچھا ہوتا تھا کہ طلباء کی اکثریت اس کو سمجھنے میں آسانی محسوس کرتی تھی یا اساتذہ اتنے اچھے ہوتے تھے کہ ان کی بتائی اور سمجھائی ہوئی باتیں، تشریحات و توضیحات اور خوبی ء بیان ایسی دلنشیں ہوتی تھی کہ حافظے میں فوراً اتر جاتی تھی یا ہم طلبا اتنے اچھے ہوتے تھے کہ تقریباً ساری ہی کلاس کے 35،40طلباء فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو جاتے تھے! انگریزی، اردو، فارسی، ریاضی، تاریخ، جغرافیہ، سائنس ،ڈرائنگ، عربی وغیرہ کے سالانہ امتحانات کے نتائج تقریباً صد در صد ہوتے تھے۔

یکم اپریل کو گل فروشوں کی چاندی ہوتی تھی۔ والدین کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار ہوتے تھے جن سے اساتذہ کے جیب و دامن بھر جایا کرتے تھے۔ ان ایام میں ویسے بھی بہار کی آمد آمد ہوتی اور سکول کا سارا اسمبلی گراؤنڈ خوشبوؤں سے مہک اٹھتا تھا۔ فیل ہونے والے طلباء کی تعداد بہت ہی کم ہوتی تھی جو کامیاب ہونے والوں کی اکثریت میں دب کے رہ جاتی تھی۔
اس زمانے میں سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری بورڈز نہیں ہوا کرتے تھے۔ میٹرک کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی کے زیرِ انتظام منعقد ہوا کرتے تھے۔

میری میٹرک کی سند پنجاب یونیورسٹی کی اجرا شدہ ہے۔ اور جب یہ موصول ہوئی تھی تو ’’فرسٹ ڈویژن‘‘ میں کامیاب ہونے کے حصہ ء تحریر کو نہ صرف خود دیکھ دیکھ کر پھولے نہیں سماتا تھا بلکہ خاندان کے بزرگوں کو بھی دکھا دکھا کر ایک عجیب طرح کی سرخوشی محسوس کیا کرتا تھا۔
سکول میں داخل ہونے کا دن بھی ابھی تک یاد ہے۔

پانچ سال سے کم عمر کے بچے کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اب تو بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو سکول کے رجسٹر داخل و خارج میں اس کا نام درج کروا دیا جاتا ہے۔ اور ویسے بھی اگر تین سال کا بچہ یا بچی سکول میں داخل نہ کروائی جائے تو عزیز و اقربا حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ ابھی تک اس کو گھر میں کیوں بٹھایا ہوا ہے؟۔۔۔ بھیجو اس کو سکول میں۔۔۔ کلاس اول سے پہلے کی کلاسوں کے عجیب عجیب نام بن چکے ہیں مثلاً پلے گروپ، نرسری، پریپ اور اس کے بعد کلاس ون ،ٹو اور تھری وغیرہ۔

ہمارے دور میں پرائمری سکول میں صرف چار کلاسیں ہوتی تھیں۔ پانچویں کلاس ہائی سکول میں شروع ہوتی تھی اور انگریزی کی اے بی سی وغیرہ بھی ہائی سکول میں آغاز کی جاتی تھی۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کی تعلیم آج کی تعلیم سے بہتر تھی۔

میرے والد گرامی میٹرک پاس تھے۔ لیکن جب میں نے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا اور سیکنڈ ڈویژن لی تو والد مرحوم کا انگریزی کا علم و ادب مجھ سے کہیں بہتر تھا۔ وہ انگریزی اتنی روانی سے بولتے تھے کہ مجھے آرمی جوائن کرنے کے بعد بھی ان کی سپوکن انگلشن پر رشک آیا کرتا۔
ہمارا پہلی جماعت کا قاعدہ الف آم، ب بلی، پ پنکھا سے شروع ہوتا تھا جو آج بھی (ے) تک یاد ہے اور فرفر سنا سکتا ہوں۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد چند برس تک کلاس اول میں اردو کا یہی قاعدہ رائج رہا جس کا مصنف لالہ رنگ بہاری لال تھا۔ میرے چھوٹے بھائی جب سکول میں داخل ہوئے تو الف آم کی بجائے الف انار اور ب بلی کی بجائے ب بکری پڑھایا جانے لگا۔

ان حروفِ تہجی کے ساتھ تصاویر بھی ہوتی تھیں۔ لیکن جب کالج اور یونیورسٹی کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ الف آم اور الف انار میں کیا فرق ہے۔صوت و صدا کی یہ باریکیاں اس کالم میں ڈسکس نہیں کی جا سکتیں۔ لیکن ہم نے پاکستانی مصنفین کو ہندوستانی مصنفین پر جو ترجیح دی وہ اضطراری کیفیت میں دی اور یہ نہ سوچا کہ معصوم اذہان کو الف آم بہ نسبت الف انار زیادہ آسانی کے ساتھ یاد ہو جاتا ہے۔ ہندو مصنفین، مسلمان مصنفین کے مقابلے میں تعداد میں بھی زیادہ تھے اور معیارِ علم و ادب میں بھی ارفع تھے۔

ہم نے دو قومی نظریئے کو اتنا کھینچا کہ جو کچھ بانیانِ پاکستان نے سوچا تھا، اس سے بھی ’پار‘ نکل گئے۔ حضرتِ جناح اور علامہ اقبال نے جن تعلیمی اداروں سے اکتسابِ فیض کیا ان کے مصنفین یا تو انگریز تھے یا ہندو۔۔۔ مسلمان مصنفین شاذ شاذ تھے۔

لیکن ہم نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان زندہ باد اور ہندوستان مردہ باد کے نعرے اس زور سے لگائے کہ ہوش پر جوش غالب آ گیا۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن ہم تعلیم و تدریس کے میدان میں ہندوستان سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ وسطی اور جنوبی ہندوستان میں شرحِ خواندگی سو فیصد ہے۔ کیرالا اور تامل ناڈو جیسے صوبوں کی انگریزی زبان پر جو دسترس ہے وہ ہمارے سندھ، کے پی اور بلوچستان کی نہیں۔

ان کا لب و لہجہ بے شک مقامی صوتی اثرات کے تابع ہے۔ لیکن وہ لوگ اس کی پروا نہیں کرتے۔ مجھے جنوبی ہند کے بہت سے ہندوؤں اور مسلمانوں سے فون پر بات کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔

میرے کئی عزیز امریکہ اور یو کے میں ہیں اور ان کی دوستیاں جنوبی ہند سے آنے والے بھارتیوں سے ہیں۔بلاشبہ ان کے انگریزی زبان کے تلفظ پر تامل اور تیلگو وغیرہ کے تلفظ کا دباؤ ہے اور بہت زیادہ ہے لیکن وہ اپنے مافی الضمیر کو اس تامل زدہ انگریزی میں بیان کرنے سے قطعاً نہیں کتراتے اور نہ کوئی عار محسوس کرتے ہیں۔

ہم پاکستانی جب انگریزی بولتے ہیں تو زیادہ زور تلفظ اور لب و لہجہ پر ہوتا ہے۔کاملیت (Perfection) کی یہ لَت نجانے ہم کو کہاں سے اور کیوں پڑی؟ حضرت اقبال کی کوئی تقریر آج کسی آڈیو کلپ پر دستیاب نہیں۔ ان کے وہ لیکچر جو انہوں نے جنوبی ہندوستان میں جا کر دیئے ان کی عبارت از بس دقیق ہے۔

میں عبارت کے فلسفیانہ مزاج کی بات نہیں کر رہا کہ یہ مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کی خواہش پر لکھے گئے اور مدراس، حیدرآباد اور علی گڑھ میں پڑھے گئے۔ ان خطبات کی تعداد سات ہے اور مختلف زبانوں میں ان کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ میری نظر میں ڈاکٹر وحید عشرت کا ترجمہ سب سے بہتر ہے۔
بات کسی اور طرف نکل رہی ہے۔ میں عرض یہ کر رہا تھا کہ علامہ اقبال کی کوئی آڈیو آج دستیاب ہوتی تو ہم یہ سنتے کہ ان کا لب و لہجہ انگلش نہیں، پنجابی زدہ تھا۔ کئی اقبال شناسوں نے اس استدلال کی توثیق کی ہے۔ دوسری طرف قائداعظم کی انگریزی کا تلفظ اور لہجہ تو ہمارے سامنے ہے۔ وہ کسی بھی انگریز سے زیادہ انگریزی جانتے اور بولتے تھے!
مجھے اپنے میٹرک کی نصابی کتاب ’’سرمایہ ء اردو‘‘ کی یاد آ رہی ہے۔ اس کے حصہ ء نظم میں خواجہ حیدر علی آتش کی دو تین غزلیں بھی تھیں۔ ایک غزل کا مطلع یہ تھا:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
دیکھئے انسانی حافظہ بھی عجیب ہے۔۔۔ اس شعر کی یاد مجھے اگلے روز رشین ٹی وی (RT) پر ایک ٹاک شو دیکھ اور سن کر آئی۔ اس ٹاک شو کا نام تو معلوم نہ ہو سکا کہ مغرب کے ٹی وی پروگراموں میں اینکرز / میزبانوں کے نام نہیں لئے جاتے جبکہ ہمارے ٹاک شوز کے ناموں میں تو ان کے ناموں کی پہچان چھائی رہتی ہے۔ ۔۔۔ کس کس کا نام لوں۔ لوگ ناراض ہو جائیں گے!
رشین ٹی وی کے آدھ گھنٹے کے اس شو میں البتہ جو مہمان تھے ان کا تعارف کروایا گیا تو میرے کان کھڑے ہوئے۔ یہ کوئی پی۔ ایس راگھوان (P.S.Raghwan) تھے جو روس میں انڈیا کے سفیر رہ چکے تھے اور آج کل انڈیا کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین ہیں۔

اس شو کا عنوان تھا: World Apart یعنی ’’متضاد یا متخالف دنیائیں‘‘۔۔۔ اس ٹاک شو میں جو موضوع زیر بحث تھا وہ حالیہ انڈو پاک ملٹری سٹینڈ آف تھا اور اس ذیلی موضوع کو اس شو کے منتظمین نے ’’سٹرائیک اینڈ سٹرائیک‘‘ (Strike and Strike) کا نام دیا تھا۔ یہ ذیلی عنوان انڈیا کی طرف سے 26فروری کو بالاکوٹ پر فضائی حملے کی سٹرائیک اور اس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے 27فروری کی اس سٹرائیک کا ذکر تھا جس میں پاک فضائیہ نے انڈیا کے دو طیارے (مگ۔21اور ایس یو 30) مار گرائے تھے اور ایک بھارتی پائلت (ابھی نندن) کو پکڑ لیا تھا (جسے بعد میں رہا کرکے واپس انڈیا بھیج دیا گیا)۔۔۔ اس پروگرام کی اینکر ایک خوبرو اور نوخیز خاتون تھی(ہمارے ہاں کی خواتین اینکرز کے عین مطابق) اس کا پہلا سوال انڈیا کے سابق سفیر سے یہ تھا: ’’آج روس کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ انڈیا نے پاکستانی علاقے کی خلاف ورزی کی اور اس طرح ایک بین الاقوامی ضابطے کو توڑا‘‘۔۔۔ اس سوال کا جواب مسٹر راگھوان نے جو دیا وہ یہ تھا: ’’کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ ماسکو کا ہر شہری وہی کچھ خیال کرتا ہے جو آپ کہہ رہی ہیں؟۔۔۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے۔ ماسکو کے گلی کوچوں میں یہ پرسپشن ،جیسا کہ آپ کہہ رہی ہیں، شاید پایا جاتا ہو گا لیکن دونوں ملکوں (انڈیا اور رشیا) کے لیڈر ایک دوسرے کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں‘‘۔
اینکر کے اس اولین سوال نے ہی سابق سفیر صاحب کو تقریباً بے بس (Disarm) کر دیا تھا۔ اور اس کے بعد تو اللہ دے اور بندہ لے والا حساب ہو گیا۔ میں اینکر کی باتیں سن سن کر حیران ہو رہا تھا کہ انڈیا اور روس کے درمیان آج بھی بہت گہرے تعلقات پائے جاتے ہیں جن کو اگر دوستانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس شو میں ایک ٹِکرّ یہ بھی چل رہا تھا کہ روس، انڈیا کے پانچ گہرے دوستوں میں سے ایک ہے۔

ایک اور بات بھی میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ پاک فضائیہ نے جو دو انڈین جیٹ مار گرائے وہ روسی تھے اور روس اس طرح اپنے ہی اسلحہ کو برباد کرنے والے ملک (پاکستان) کی مدح سرائی کیوں کر رہا تھا۔ رشین ٹی وی (RT) سرتاپا حکومتی ٹیلی ویژن ہے، ساری دنیا میں دیکھا جاتا ہے، اس کا عملہ زیادہ تر ایسے مردوں اور خواتین پر مشتمل ہے جن کا تعلق روس سے نہیں، بلکہ برطانیہ اور امریکہ سے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس چینل کی پذیرائی کا گراف ساری دنیا میں بہت بلند ہے۔ خاتون اینکر نے اتنی صاف شفاف زبان اور زور دار لہجے میں باتیں کیں اور مسٹرراگھوان کو اتنا زِچ کیا کہ ایک موقع پر ان کو کہنا پڑا: ’’معلوم ہوتا ہے آپ پاکستان کا کیس لڑ رہی ہیں!‘‘ تاہم اینکر کی برجستگی اور موضوع پر اس کی گرفت بے مثال رہی۔
مسٹر راگھوان نے بار بار یہ استدلال کیا کہ 26فروری کا حملہ کسی پاکستانی ملٹری ٹارگٹ پر نہیں تھا اور نہ ہی کسی اہم سویلین ٹارگٹ پر تھا بلکہ انڈیا نے تو صرف جیشِ محمد کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا اور یہ تنظیم وہ ہے جسے اقوامِ متحدہ نے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔

لیکن جب اینکر نے پلوامہ حملے میں ایک انڈین کشمیری کا ذکر کیا اور اس بارود (Explosives) کے بھاری وزن کی بات کی جو انڈین کشمیری نے 14فروری کو ملٹری کانوائی کے خلاف استعمال کیا تھا تو سابق سفیر کی ندامت دیدنی تھی۔
خدا لگتی بات یہ ہے کہ 26منٹ کی اس وڈیو میں اینکر نے پاکستان کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ میرے خیال میں اگر کوئی پاکستانی اینکر، مسٹرراگھوان کے سامنے ہوتی تو وہ بھی اتنا زور دار اور برجستہ استدلال شاید نہ کر سکتی جتنا رشین ٹی وی چینل کی اس اینکر نے کیا۔

وہ جب مقبوضہ کشمیر میں، مسلمان کشمیری نوجوانوں کی قربانیوں کا ذکر کر رہی تھی اور مودی کے کرتوتوں کا کچا چٹھا کھول رہی تھی تو مجھے آتش کی وہ غزل یاد آ رہی تھی جو میٹرک میں پڑھی تھی اور جس کے مطلع کا حوالہ سطور بالا میں دیا گیا ہے۔

چلو پاکستان اور بھارت تو روزِ اول سے ایک دوسرے کے دشمن نمبر ایک ہیں لیکن اس رشین چینل کی اینکر نے جب ماسکو کے گلی کوچوں میں انڈین وزیراعظم اور انڈیا کی جگ ہنسائی کا ذکر کیا تو گویا آتش کے شعر کے مصرعہ ء ثانی کی ترجمانی کی کہ : ’’کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘۔
ہمارے میڈیا چینلوں کو اس پروگرام کو لفٹ کرنا اور اس کو اردو میں ڈب کرکے سنوانا چاہیے۔ پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات کی وہ کیفیت جو آج سے 5،7برس پہلے تھی وہ اب ایک معکوس سمت میں چل رہی ہے۔

انڈیا اگر اپنے الیکشنوں سے پہلے پاکستان کے خلاف کسی جارحانہ کارروائی کا ارادہ کرر ہا ہے تو میرا خیال ہے یہ پروگرام سن کر مودی کو سوچنا پڑے گا کہ جو کچھ خلقِ خدا ان کے بارے میں غائبانہ کہہ رہی ہے وہ کوئی معمولی خلقِ خدا نہیں، ایک سپرپاور کی خلق خدا ہے!

مزید :

رائے -کالم -