عمران خان کے انتخابی حلقے کے عوام کی توقعات اور زمینی حقائق
پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ الیکشن سے قبل بھر پور انداز میں اپوزیشن کی اور مخالفین کے خوب لتے لیے۔ قوم کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ اصل مسائل کا حل انہی کے پاس ہے، پورے ملک کی طرح وزیر اعظم کی کرسی سنبھالنے والے عمران خان کے حلقے این اے95کے عوام نے بھی اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈالا اور یوں قومی اسمبلی کی نشست سے عمران خان وزارت عظمیٰ تک جا پہنچے اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی86سے تحریک انصاف کے امید وار امین اللہ خان”وادی نمل“ پر مشتمل علاقوں پر الگ تحصیل دلانے کے وعدے کر کے پنجاب اسمبلی تک پہنچنے والے راستے صاف کرنے میں کامیاب ہوگئے اور عوام کا سوچنے کے بجائے ذاتی تنخواہیںبڑھوانے ولاے ایوان کا حصہ بن گئے۔ حسب معمول عوام کی طرف سے مٹھائیاں بانٹی گئیں، بھنگڑے پڑے اور جشن منایا گیا لیکن مسائل جوں کے توں رہے،نہ ٹوٹی سڑکیں مرمت ہو سکیں، نہ برساتی نالے کا پُل مکمل ہو سکا بلکہ ایک ایسا مجوزہ انتظامی یونٹ بنانے کا اعلان کر دیا گیا جس سے عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مشکلات میں اضافہ یقینی ہے۔اس مجوزہ یونٹ کی خبر پھیلی تونچلی سطح پر عوام میں بے چینی پھیلی اور تھانہ چکڑالہ کو الگ تحصیل بنانے یا پہلے سے موجود تحصیل میانوالی ہی برقرار رکھنے کیلئے تحریک شروع ہو گئی۔ جس کو دن بدن تقویت ملتی چلی گئی اور جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو وادی نمل سے ایک جلوس ڈی سی آفس تک جانے کیلئے تیار ہے۔
روزنامہ پاکستان کو اس حلقے کی صورتحال کا علم ہوا تو وزیر اعظم کا حلقہ انتخاب ہونے کی وجہ سے معلومات اکٹھی کی گئیں جس کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ این اے 95میانوالی کا کچھ حصہ کوہ نمک کے مغرب اور کچھ مشرق میں واقع ہے یعنی کوہ نمک نے اس حلقے کو دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ گزشنہ دنوں نومولود وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار نے میانوالی کاد ورہ کیا تو تحصیل میانوالی کی وسعت کو دیکھتے ہوئے داؤد خیل کو نئی تحصیل بنانے کا اعلان کر دیا جس پر شاید کسی کو اعتراض نہیں تھا اور اب چونکہ اس علاقے کے رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم بن کر ریڈ زون کے باسی بن کر رہ گئے ہیں، ان کے بعد رکن صوبائی اسمبلی تھے جنہوں نے علاقے میں نئی تحصیل کو کیش کرنے کیلئے مہم شروع کر دی اور یہ سوچ کر آپ کو بھی بے حد حیرت ہو گی کہ نئی مجوزہ تحصیل داؤدخیل میں نمل(تھانہ چکڑالہ)کا علاقہ بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
اب زمینی حقائق یہ بیان کرتے ہیں کہ داؤد خیل اور نمل کوہ نمک کے مشرق اور مغرب میں واقع ہیں۔ دونوں علاقوں کے عوام کو ایک دوسرے کے علاقے میں جانے کیلئے میانوالی شہر جانا پڑتا ہے۔یعنی مجوزہ تحصیل بننے پر نمل کے عوام کو پہلے میانوالی اور پھر مزید سفر کر کے داؤد خیل جانا پڑے گاکیونکہ درمیان میں کوہ نمک کی وجہ سے کوئی براہ راست موثر زمینی راستہ موجود نہیں ۔ آبادی اور مسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں انتظامی یونٹ بنتے ہیں اور داؤد خیل کو بھی الگ تحصیل کا درجہ ملنے پر کسی کو اعتراض ہے اور نہ ہونا چاہئے لیکن پہلے تحصیل میانوالی کے ساتھ منسلک نمل اور چکڑالہ کی کئی یونین کونسلز کے عوام کو ان کے اپنے علاقے میں نیا انتظامی یونٹ دینے کے بجائے پہلے سے موجود میانوالی سے بھی مزید دور بنانا معصوم شہریوں کے ساتھ سراسر انصاف کے نام پر بننے والی پارٹی، عمران خان اور حکومت کی نا انصافی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے بھی اگر جائزہ لیں تو زبان، لہجہ ، رہن سہن اور رسم رواج سے یہ علاقہ ضلع میانوالی کی نسبت ضلع چکوال اور تحصیل لاوہ کا حصہ محسوس ہوتا ہے لیکن پہلے بنوں اور پھر 1902ءسے تا حال میانوالی سے جڑارہا ، لیکن اب اسے حلقے سے منتخب ہونے و الے شخص کے وزیر اعظم بننے کے بعد مشکلات میں کمی کی بجائے تحصیل کو مزید دور بنانے کے اعلانات نے کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کی مختلف یونین کونسلز کے چیئرمین صاحبان اپنی پارٹی وابستگیاں بھول کرایک ہو گئے اور”تحریک یکجہتی چکڑالہ“کے نام سے تحریک شروع کر دی جس کے زیر اہتمام ضلعی صدر مقام تک آج ریلی نکالی جا رہی ہے۔ یہ جمہوری حق بھی ہے اور امید رکھنی چاہئے کہ حکام بالا بھی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔ اسی ناچیز نے جب تحریک کے ذمہ داران سے بات کی تو یہ انکشاف ہو ا کہ شاید وزیر اعلیٰ کو زمینی حقائق معلوم نہیں تھے، ڈی سی آفس میں ایک میٹنگ بلائی گئی جس میں ایم پی اے اورعلاقہ کے چیئرمینز بھی موجود تھے، زمینی صورتحال پر غور کیا گیاجس کے بعد تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی امین اللہ خان نے انا کا مسئلہ بنا لیا اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے علاقے داؤد خیل کو تحصیل بنا کر اتنا علاقہ شامل کر لیں تاکہ ایک ایم پی اے کی نشست پکی ہو جائے۔ وہ اگر الگ تحصیل داؤد خیل بنانا چاہیں تو اعتراض نہیں لیکن چکڑالہ کو اس تحصیل کر حصہ بنانے پر ہر ممکن مزاحمت ہو گی اور تمام آپشنز استعمال کئے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ داؤد خیل میں شمولیت کی بجائے تحصیل لاوہ میں شمولیت کو تر جیح دے سکتے تھے لیکن میانوالی میںون ڈندو ہونے کی وجہ سے اسی کے ساتھ جڑے رہے۔ اب یاتو الگ تحصیل دی جائے یا کم از کم مشکلات میں مزید اضافے سے گریز کیا جائے۔پاکستان سدھارنے کی کوشش میں مصروف وزیر اعظم عمران خان کے حلقے میں صرف یہی مسئلہ نہیں بلکہ ترقیاتی کام بھی کوئی نہ ہو سکا۔ اسلام آباد اور کراچی کو ملانے والی مین شاہراہ پر جگہ جگہ گڑھے اور ٹوٹ پھوٹ اپنی مثال آپ ہے۔کئی ایک حادثات کا ذمہ دار بھی اسی ناگفتہ بہ حالت میں موجود سڑک کو گردانہ جاتا ہے۔
عمران خان کے حلقے میں احتجاج ، ریلی اںاور تحریکیں اپنی جگہ لیکن وزیر اعظم کا اس پر ابھی تک کوئی مو قف سامنے نہیں آسکا، اولاً تو یہ کہ یہاں کوئی ڈوگرہ راج نافذ نہیں کہ جو جس کی مرضی آئے کرگزرے، عدالتیں اور دیگر متعلقہ فورمز موجود اور فعال ہیں, ثانیاً وزیراعظم کا ایک بیان یا کسی رہنماء کو فون یہ ساری تحریک کے ہی خاتمے اور عوام میں اطمینان کا باعث بن سکتا تھا لیکن واللہ عالم، وزیراعظم نے تاحال اس معاملے میں لب کشائی کیوں نہ فرمائی۔ ایک طرف انتظامی یونٹس اورٹرانسپورٹرز کے سڑکوں کے مسائل ہیں تو دوسری طرف نمل ڈیم میں پانی کا اہم ذریعہ نالہ ترپی کے اطراف میں موجود قصبے کے مکین اپنے جنازوں کی تدفین، مریضوں کی ہسپتال منتقلی اور کاروباری افراد چیزوں کی آمد رفت نہ ہونے پر پریشان اور اس کی وجہ نالہ ترپی پر موجود پُل ہے۔
نیا پُل بنا دیا گیا لیکن دونوں اطراف سے پُل پر گاڑیوں کے جانے کا راستہ موجود نہیں اور بارشوں کی صورت میں عوام پانی کے ختم ہونے کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کو چاہئے کہ اپنے تبدیلی کے نعروں اور دعووں کوسچ ثابت کرنے کیلئے کم از کم اپنے حلقے کے عوام کے مسائل ہی حل کردیں تاکہ انہیں اپنے ووٹ وزیراعظم اوران کی جماعت کو دینے کا پچھتاوا نہ ہو۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔