ا پنی جبین ِ شوق کو سجدوں سے سرفراز کر
جب جب نوع انسانی کو قدرتی آفات اور وباؤں نے اپنی لپٹ میں لیا، تب تب صرف ایک ہی عمل انسانوں کو اس مشکل اور عذاب سے نجات کا مؤجب بنا، وہ تھی، اجتماعی توبہ کا عمل…… جس کے بعد خدا نے اُن آفات، وباؤں اور عذابوں کا سلسلہ ان بستیوں پر ختم کر دیا، ان کو راحت بخشی، مگر اس کا میابی کے لئے سچی توبہ کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ہمیشہ اپنے بڑے بوڑھوں کو زیادہ بارشیں ہونے کے باعث اجتماعی توبہ اور استغفار کرتے دیکھتے رہے ہیں۔مساجد میں اذانوں کا سلسلہ شروع ہو جایا کرتا تھا،پھر ہم نے کئی بار اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے مسلمانوں کو ان مسا ئل سے نکلتے دیکھا ہے……ربِ ذولجلال نے قرآن مجید میں متعدد بار ان قوموں کا ذکر کیا ہے، جو اللہ کے عذاب سے ہلاک ہو ئیں۔ کبھی ان پر عذاب بارشوں کی صورت میں آیا، کبھی آند ھیوں اور طوفانوں کی شکل میں اور کبھی امراض اور وباؤں کی صورت میں ملکوں اور قوموں کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اگرچہ کبھی انسان خود ہی اپنی تبا ہی کا سامان پیدا کر لیتا ہے۔ان عذاب کئے گئے لوگوں میں قرآن نے فرعون، نمرود، ہاتھی والے، سنیچر والے، قوم لوط،قوم نوح اور کئی اور کا ذکر کیا ہے۔ اُن قوموں پر خدا کا عذاب آ کر رہتا ہے، جو نا انصا فی اور ظلم و جبر پر اُتر آئیں اور ان پر بھی جو اس ظلم اور نا انصا فی پر خاموش رہیں۔اللہ حق رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے، جس وقت چاہے،اپنے اَ مر سے اپنے بندوں کو معاف فرما دے یا ان کو امتحان میں ڈال دے۔ اس کو کسی شے کی نہ تو پروا ہے،نہ ہی وہ کسی کا پابند ہے اور نہ ہی اُس کو کسی کی ضرورت ہے۔ بے شک وہ ہر شے پر قادر ہے اور ہم سب اس کے محتاج اور حاجت مند ہیں۔
یہاں یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ خداکو کسی قوم پر عذاب اور اپنے بندوں پر امتحان کے لئے کسی فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن اس بات کا گواہ ہے کہ جب بھی خا لق نے کسی قوم پر عذاب کا ارادہ فرما لیا تو پھر مچھروں اور ابا بیلوں جیسے چھو ٹے اور نازک اجسام سے بھی اپنا کام لے لیا۔ وہ اپنی رسی کو ایک خاص وقت تک ظالموں، جابروں اور نا انصا فوں کے لئے دراز فرما دیتا ہے، پھر جب ان کا وقت ختم ہو جائے،تب ان کی رسی کو کھینچ کر ان پر عذاب نا زل فرما دیتا ہے اور کبھی کبھی اپنے بندوں کو آزمائش میں مبتلا فرما دیتا ہے، جس کی مثالیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں ……اگر رب مچھروں اور ابابیلوں سے کام لے سکتا ہے تو کیا کہیں آج کے دور میں وہ یہ کام کرونا سے تو نہیں لے رہا؟ طاعون،سارس، ابولہ کے بعد کرونا کہیں اُس خدائے ذوالجلال کا امتحان تو نہیں۔ ہمیں اس مشکل گھڑی میں اُس خالق کائنات کے سامنے اجتماعی طور پر توبہ کرنی چا ہئے۔ اس امتحان میں مشکل یہ ہے کہ اجتماعات بھی اس وباء میں مزید بڑھوتری کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اب حال ہی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس کو عالمی وباء قرار دے دیا ہے۔
ہمیں توبہ کرنی چاہئے اپنی مجرمانہ خاموشی پر کہ جب ہم خاموش رہے اور برما میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا، ہمیں توبہ کرنی چاہئے کشمیری مسلمانوں کی قید ِ تنہائی اور ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری پر، عراقی مسلمانوں کی بربادی پر، لیبیا کے مسلمانوں کی تباہی پر، یمن کے مسلمانوں کی مظلومی پر، فلسطینیوں پرظلم اور جبرپر، شامی بچوں اور عورتوں کے قتل پر،افغانستان میں انسانیت سوز مظالم پر، چین میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر، چیچنیا کے مسلمانوں کی آہ وفغا ں پر، بھارت کے سکھوں، دلتوں اور مسلمانوں کے بہیمانہ قتل پر اور توبہ طلب کرنی چاہئے اپنے انفرادی اعمال پر اور ندامت کے ساتھ اُس مالک حقیقی کے سامنے جھک کر اور گڑگڑا کر توبہ کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ کیا وہ خدااُن مظلوموں کا خدا نہیں، جن کی آہیں اور سسکیاں عرش برّیں تک جا پہنچی ہیں، جن کی بد دعائیں ہمارا پیچھا کر رہی ہیں، جنہوں نے اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے سے پہلے ہمیں ببانگ دھل کہا تھا کہ قیامت کے دن ہم خدا سے اپنی بے بسی اور پوری اُمت کی خاموشی اور خود غرضی کا شکوہ کریں گے۔ہمیں نبی(اکرمؐ)کی تعلیمات سے سبق سیکھنا چاہئے۔
ہم سے تو وہ نہتی انسان دوست امریکی عیسائی لڑ کی رچل کوری ہزار درجے بہتر ہے جو اسرائیل کی طرف سے فلسطینی گھروں کو بے جا مسمار کرنے کے خلاف اکیلی بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اس جرم کی پاداش میں اسی ماہ رواں مارچ 2003ء کو بے دردی سے کچل دی گئی۔ ہمیں رچل سے سبق سیکھنا چاہئے اور دُنیا کو انسانیت کا درس دینا چاہئے، کیونکہ بات صرف مسلمانوں کی نہیں،بات ہے انسانیت کی اور بات ہے ظلم کی، بات ہے ظلم پر خاموشی کی، وہ خواہ مسلمانوں پر ہو، عیسا ئیوں پر ہو،ہندوؤں پر ہو، یہودیوں پر ہو،سکھوں پر ہو یا کسی بھی انسان پر ہو…… خواہ کسی جانور پر ہی کیوں نہ ہو، ہمیں اپنی آواز ہمیشہ ظلم کے خلاف بلند کرنی چاہئے۔اے کاش وہ خدا ہمارے دِلوں میں احساسِ بیداری پیدا کر دے،اس عالم مدہوشی سے نکال کر سجدے کی توفیق عطا فرمائے وہ ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں سے صرف نظر فرما دے، وگرنہ اُس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ وہ ہماری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے۔ اُس رب کے لئے سب کچھ ممکن ہے۔ اب بھی وقت ہے اور توبہ کا دروازہ کھلا ہے، سب توبہ کیجئے اور یاد رکھئے کہ توبہ کے دو فائدے ہیں اوّل یہ کہ اگر ہم بخش دیئے گئے تو ہم پر سے امتحان ٹال دیا جائے گا اور ہمیں خدا کی طرف سے ایک موقع اور مل جائے گا تاکہ ہم اپنی اصلاح کر سکیں اور دوسرا یہ کہ اگر ہم اس امتحان میں کام آ گئے، تب بھی اگر اُس خالق نے ہماری توبہ قبول کر لی تو ہم شاید اُس کی جنتوں کے حق دار ٹھہریں، اب فیصلہ آپ کا ہے۔ اپنے اردگرد کا خیال رکھئے، اپنے ہمسائیوں، عزیز رشتہ داروں، غرباء اور مساکین کا احساس کیجئے،اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دل میں ندامت ضرور محسوس کیجئے، اپنے کل پر اور اللہ سے آنے والے وقت کے لئے خیر کی دُعا مانگئے۔ اب ملاوٹ، سود، حرام خوری اور ذخیرہ اندوزی کو چھوڑ دیجئے، اب بھی وقت ہے اگر ہم سمجھیں، ورنہ کہیں ہم اس امتحان میں نا کام نہ ہو جائیں اور ہم بے شک کسی امتحان کے قا بل نہیں ہیں۔ ذرا سوچئے کیا ہمارا رب ہم سے اس قدر ناراض ہے کہ ہم اس کرونا کے با عث اجتماعی توبہ کے لئے اکٹھے بھی نہیں ہو سکتے ؟یاد رکھئے ہم اُس وائرس کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جس کو دیکھ بھی نہیں سکتے۔
کیا ہم سے خدا اُن لوگوں سے بھی زیادہ ناراض ہے،جن پر عذاب کے وقت کم از کم اُس رب نے اُن کو مچھر، پانی اور ابا بیل دکھا تو دئیے، ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ اس کو دیکھ ہی سکیں، جس سے ہم بچنے کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ صرف خدا ہی ہمیں بچا سکتا ہے،اس کے سوا کو ئی مدد گار نہیں۔ یہاں تک کہ خدا نے تو ہم سے خانہ کعبہ کے طواف کی قوت بھی چھین لی ہے۔ اب تو مسلمانوں کے لیے کعبہ میں بھی کو ئی دُعا کرنے والا نہیں رہا،اُس نے ہم سے با جماعت نمازوں کی قوت بھی چھین لی ہے۔ اب ہمیں اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہو گا۔جب خوف ہی خوف ہو تو اپنی جبین شوق کو سجدوں سے سرفراز کرنے میں ہی عافیت ہے۔
عالمی منڈی میں مندی کا رجحان ہے، سٹاک مارکیٹ کے حصص تیزی سے گر رہے ہیں،پوری دُنیا کی کمپنیاں بینک کر پسی کے د ہا نے پر پہنچنے والی ہیں، ڈالر کی قیمت میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ اب جہاں ہمیں ملک و قوم کو اس موذی مرض سے بچا نے کے لئے عملی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے، وہاں ہمیں ایک وقت طے کر کے ا نفرادی، مگر مل کر ایک ہی وقت پر بحیثیت قوم اور اُمت اُس اللہ کے حضور توبہ طلب کرنی چاہئے اور اس سے معافی طلب کرنی چاہئے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق اب چین، ایران، روس اور اسرائیل نے اس وائرس کو امریکی لیب میں بنایا گیا وائرس قرار دیا ہے، جسے امریکہ نے ماننے سے انکار کو دیا ہے۔ اب مسئلہ یہ نہیں کہ یہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے یا نہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس وائرس سے انسان کس قدر متاثر ہو رہے ہیں اور اس کے دُنیا پر کس طرح اثرات ہو رہے ہیں؟ بحیثیت مسلمان ہمیں سب انسانوں کا سوچنا اور سب انسانوں کے لئے نہ صرف دُعا کرنی چاہئے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کران کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے، جیسے حکومت پاکستان نے مشکل وقت میں چین کی مدد کی اور ان کا ساتھ دے رہا ہے۔ اسی طرح جیسے چین نے اٹلی کی مدد کے لئے ٹیم بھیجی ہے، حکومت پاکستان کو چین کے تجربے سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
اس وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے آگے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کو عملی اقدامات ا ٹھانا ہوں گے اور ملک وقوم کو مل کر اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے، جب مَیں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب ہے کہ اس مشکل گھڑی میں اشیائے خورونوش کو ذخیرہ نہیں کرنا چاہئے، ان کو مارکیٹ سے گھر میں زیادہ مقدار میں جمع کرنے سے ان کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کا اثر سب سے زیادہ غرباء اور مساکین پر ہوتا ہے۔مَیں اس بات کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ اگر کسی مرحلے پر اس وائرس سے بچاؤ کے لئے حکومت کو کوئی عملی اقدامات اُٹھانا پڑے اور ملک کو خدانخواستہ چند دِنوں کے لئے لاک ڈاؤن کرنا پڑا تو اس کے ملکی تجارت پر اثرات مرتب ہوں،اُس وقت وہی سرخرو ہو گا جو خدا خو فی کرے گا اور خود غرضی سے اجتناب کرے گا، کیونکہ خود غرضی کی منزل صرف موت ہے۔ اس وقت دُنیا بھر میں سو سے زائد ممالک میں یہ موذی مرض اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ برطانیہ میں ہر روز ایک سو مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اٹلی کے بارہ سے زائد صوبوں کو بند کیا جا چکا ہے۔ ایران، جرمنی، فرانس، نیدرلینڈ اور امریکہ سمیت سب کے سب لاک ڈاؤن کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جون ا یلیا نے کیا خوب کہا تھا:
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
بہر کیف اب ایک ہی چیز ہمیں اس مشکل سے نکال سکتی ہے، وہ ہے سچی توبہ خدائے ذولجلال کی طرف رجوع اور اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں۔ خدا ہم سب پر رحم فرمائے۔ امین