کرونا وائرس بارے حکومتی جامع منصوبہ بندی
کرونا وائرس نے تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور تاحال 155سے زائد ممالک میں کرونا وائرس کے مریض پائے گئے ہیں۔ کرونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جو ناک اور منہ کے ذریعے انسان کے اندر داخل ہوتا ہے اور اس کے سسٹم کو متاثرکرتا ہے۔ دو ماہ قبل کرونا وائرس کا حملہ چین کے شہر ووہان میں ہوا اور اس نے مزید دو شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ ایک ایسی ناگہانی آفت ہے جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اٹلی، جرمنی، فرانس، جاپان، سپین،امریکہ، سنگاپور، سوئٹزرلینڈ،برطانیہ، آسٹریلیا، سویڈن، ناروے اورکینیڈا میں کرونا کی تباہ کاریوں اور ان ممالک کے طبی ماہرین کے مشوروں کے محتاط تجزے کے بعد گورنمنٹ آف پاکستان نے اپنے شہریوں کے بچاؤ کیلئے جامع اقدامات کئے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ تمام تر حکومتی اقدامات حتیٰ کہ پورے ملک میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد بھی عوام اس عفریت کو ہلکا پھلکا لے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں صرف یہ نزلہ زکام کی بیماری ہے جس سے کوئی خطرہ نہیں۔ یہی لاعلمی اٹلی کے عوام نے بھی ظاہر کی تھی جس کا انہیں خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔
ہمارا تعلیمی معیار بھی ان ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہمارے ہاں جاہلیت کا دور دورہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ ہمارے طبی نظام میں بیک وقت 1000 مریضوں کو سنبھالنے کیلئے انتظامات نہیں ہیں اورخاص طور پر کرونا مریضوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ کرونا وائرس کا شکار کسی خاص طبقے امیر، غریب، مذہبی، طاقتور یا کمزور لوگ نہیں۔ یہ ایک وائرس ہے جو ہر فرد کو ہو سکتا ہے۔ اس کی بڑی مثال برازیل، کینیڈا اور برطانیہ کے حکمران طبقہ میں کرونا وائرس کا پایا جانا ہے۔
کرونا کیخلاف حکومتی اقدامات بلاشبہ تسلی بخش تاہم ان کو مزید موثر بنانے کی فوری ضرورت ہے اور اس سلسلے میں معمولی کوتاہی اور غفلت کی ہرگز، ہرگز گنجائش نہیں۔ سرکاری دفاتر میں سکریننگ وغیرہ شروع کرنے کا حکومتی فیصلہ بھی خوش آئند ہے لیکن اس عمل میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کو فوری شروع کر دیا جانا چاہئے۔ باقی عوام اور مذہبی، سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں بھی اس مشکل گھڑی میں حفاظتی انتظامات کو ہر صورت یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ مذہبی مفکر حضرات کرونا وائرس بارے حکومتی اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں مت کھڑی کریں۔ یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن کی طرف سے سیاسی جلسے منسوخ کرنا بھی حوصلہ افزا ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے قوم کو پیغام دیا ہے کہ کرونا وائرس سے ڈرنا نہیں‘ لڑنا ہے۔ اس وبا سے ہم سب کو مل کر نمٹنا ہے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے ایسے فیصلے نہ کریں جس سے عوام میں خوف پیدا ہو۔ حکومت کو کرونا وائرس کے مسئلہ کی سنجیدگی کا مکمل ادراک ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومتی سطح پر ہر ممکن اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔ تمام صوبے باہم مل کر کرونا وائرس کے حوالے سے کردار ادا کررہے ہیں‘ ہم صوبوں کی ضروریات پوری کرینگے۔ پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ خندہ پیشانی اور ثابت قدمی سے کیا ہے۔ انہوں نے عوام کو اشیائے ضروریہ کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ملک میں کہیں بھی خوراک کی قلت نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے ونٹی لیٹرز کی دستیابی بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے بھی علماء سے مذہبی اجتماعات منسوخ کرنے اور جمعہ کے خطبات کو مختصر کرنے کا کہا ہے تاکہ اس مرض پر ہر صورت قابو پایا جائے۔ اس حوالے سے وزارت صحت کی طرف سے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں تاہم ایک معمولی سا حفاظتی قدم ہے اگر اٹھا لیا جائے تو کافی حد تک خدشات پر قابو پا یا جا سکتا ہے جیسے شوکت خانم ہسپتال میں وزیٹرز کیلئے جگہ جگہ اینٹی بیکٹریا جیل (Jell) کی بوتلیں لگائی گئی ہیں بالکل اسی طرح پبلک مقامات لاری اڈوں، ہسپتالوں، عدالتوں، سرکاری، غیر سرکاری دفاتر کو حکومت کی طرف سے اینٹی بیکٹریا جیل (Jell) مہیا کر دی جائیں تو یقینا ایسی نازک صورتحال میں تسلی بخش اقدام ہو گا، تاہم اس جیل (Jell) کو سونے کے بھاؤ میں ڈھل جانے سے روکنے کے لئے پہلے ہی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اگرچہ اقدام معمولی ہے لیکن یقینی طور پر کافی حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
تاہم بعض مقامات پرحکومتی اقدامات میں سستی کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہو ئے جن میں ایک تو بلوچستان اور ایران کی سرحد مکمل طور پر بند نہ کرنا اور تفتان پر قرنطینہ اور طبی امداد میں کمی، وطن عزیز میں اس بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بنی۔ ہوائی اڈوں پر مؤثر سریننگ نہ ہونے کے باعث بھی یہ مرض دوسرے علاقوں میں پھیلا۔ بہر حال تفتان سرحد پر باقاعدہ اور مناسب قرنطینہ کا قیام اور ہوائی اڈوں پر مسافروں کی جانچ پڑتال بہت ضروری ہے۔
حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس وباء سے نمٹنے کیلئے حکومت کا ساتھ دے اور حکومت جو ہدایات جاری کرے ان پر عمل درآمدکیاجائے۔ عوام نے جس طرح حکومت پنجاب سے مل کر ڈینگی کو شکست دی اسی جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وباء سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر فرد بار بار ہاتھ اور منہ کو اچھے طریقہ سے دھوئے۔ پرہجوم جگہ پر جانے سے گریز کرے۔اگر چھینک آئے تو منہ کے آگے رومال یا ٹشو پیپر وغیرہ رکھے اور اگر یہ دستیاب نہ ہو تو کھانستے یا چھینکتے وقت منہ کو کہنی سے ڈھانپ لے تاکہ دوسرے آپ کے منہ سے نکلنے والے جراثیم سے محفوظ رہیں۔ صحت مند افراد کیلئے ماسک پہننے کی ہرگز ضرورت نہیں، ماسک صرف وہی استعمال کرے جو بیمار ہو تاکہ اس کے جراثیم دوسرے افراد میں منتقل نہ ہوں۔ ماہرین کے مطابق ماحول کو صاف ستھرا رکھ کر بھی اس پر قابو پایاجاسکتا ہے۔