زوال پذیر بھارتی جمہوریت

زوال پذیر بھارتی جمہوریت
زوال پذیر بھارتی جمہوریت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حال ہی میں عالمی سطح پر ایک اور رسوائی بھارت کے حصے میں آئی کہ امریکہ کے ایک آزاد ڈیموکریسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فریڈم ہاؤس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں بہت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہیں۔سال 2014ء میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب کی جارہی ہیں اور 2019ء میں مودی حکومت کے بعد سے اس کے زوال میں بہت تیزی آئی ہے۔بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے جمہوری اقدار کے نگراں سویڈن کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا، ”بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا“۔


سویڈن کے معروف ادارے ”وی ڈیم“ نے بھارتی جمہوریت سے متعلق اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بھارت کو”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ کے بجائے اس کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اب اسے محض،”انتخابی جمہوریت“ قرار دیا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی، بغاوت اور ہتک عزت جیسے قوانین کے کثرت سے بے جا استعمال کا حوالہ دیا ہے۔
بھارت اب آمریت پسند ہوچکا ہے اور اس کی صورت پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی بدتر ہے۔ مودی حکومت عموما اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کے لئے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کا استعمال کرتی ہے۔جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ساٹھ ہزار افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بیشتر ایسے لوگوں کو ملزم قرار دیا گیا ہے جو حکمراں جماعت پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔اس رپورٹ کو بھارت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔


غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے لئے متنازع قانون یو اے پی اے کے متعلق کہا گیا کہ اسے، صحافیوں اور سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت، آئین میں جن سیکولر اقدار کا عہد کیا گیا ہے اس کے  خلاف کا م کر رہی ہے۔ رپورٹ میں شہریت سے متعلق بھارت کے نئے قانون سی اے اے کا بھی خاص طور پر ذکر ہے۔ اس بارے کہا گیا ہے کہ حکومت اس کے خلاف مظاہر ہ کرنے والے طلبا اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو سزا دینے کے لئے بھی یو اے پی اے کا استعمال کر رہی ہے۔


 جہاں ایک جانب حکومت نے سول سوسائٹی  کو حتی الامکان دبانے کے لئے تمام طریقوں کا استعمال کیا ہے وہیں سخت گیر ہندو نظریاتی اداروں اور ان کی اتحادی تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے سول سوسائٹی تنظیموں پر قد غن لگانے اور انہیں محدود کرنے کے لئے ”فارن کانٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ“ (ایف سی آر اے) کا خوب استعمال کیا ہے۔
 انسانی آزادی کے معاملے پر اوسط پوا ئنٹس 6.93 مقر ر ہیں۔انڈیکس پوائنٹس قانون کی عمل داری، مذہبی و عوام تحفظ، نظام قانون کی صورتحال دیکھ کردیے جاتے ہیں۔بھارت ہیومن انڈیکس ریٹنگ میں 6.43 پوائنٹس حا صل کر سکا۔ یوریج ہیومن فریڈم ریٹنگ 6.93 پوائنٹ ہے۔

ریٹنگ ایجنسی کیٹو انسٹیٹیوٹ نے کل 162 ممالک کو ریٹ کیا۔ ذاتی آزادی، یعنی پر سنل فریڈم انڈیکس میں بھارت کو 6.30 ریٹنگ پوائنٹ ملے۔ اکنامک فریڈم کے شعبہ میں بھارت کو 6.56 ریٹنگ پوائنٹ ملے۔ بھارت کو پاکستا ن (140) بنگلہ دیش (139) اور چین (129) سے پہلے ریٹ کیا گیا۔نیپال(92)، سری لنکا (94)، اور بھوٹان 108 ریٹنگ پوائنٹس کیساتھ بھارت سے آگے ہیں۔ ٹاپ ٹین میں ریٹنگ حاصل کرنیوالے ممالک میں نیوزی لینڈ، سوئٹزر لینڈ، ہانگ گانگ،ڈ نما رک، آسٹر یلیا، کینیڈا، آئرلینڈ، اسٹونیا، جرمنی اور سویڈن شامل ہیں۔ ریٹنگ میں نویں پوزیشن پر جرمنی اور سویڈن میں مقابلہ برابر رہا۔ جاپان ریٹنگ میں 11ویں اور برطانیہ اور امریکہ 17 ویں نمبر پر موجود ہیں۔شام ریٹنگ لسٹ میں بدترین ملک رہا۔ سوڈان، وینزویلا، یمن اور ایران اسی ترتیب سے بدترین ہیومن انڈیکس والے ملکوں میں شامل ہیں۔انڈیکس ذاتی اور معاشی شعبوں سمیت 17 اشاریوں کی بنیا د پر تشکیل دیا گیا۔ قانون کی حکمرانی، سکیورٹی، اور سیفٹی بھی انڈیکس کی ترتیب کے اشاریوں کی بنیا دتھے۔مذہب، لیگل سسٹم، حق جائیداد اور پیسہ تک رسائی بھی انڈیکس کے لئے زیر غور  رہے۔


بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، گرین پیس اور آکسفیم جیسے متعدد بین الاقوامی ادارے اپنے آپریشنز کو محدود یا پھر مکمل بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور تنازعات کو سلجھانے سے متعلق غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار ڈائیلاگ کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے عطیات دینے والوں سے متعلق آئے دن کی پوچھ تاچھ اور اب ان کے ذریعے دی جانے والی مالی امداد کو بینک اکاونٹ میں جمع ہونے سے روکنے پر ان کا اسٹاف مالی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار ہو گیا تھا۔ایمنسٹی کے مطابق اس کے اکاونٹ سیل کر دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین کو مشاہرہ ہی نہیں دے پا رہے تھے۔ اس عالمی تنظیم سے حکومتیں خائف تو ہو سکتی ہیں، لیکن اس کی رپورٹیں، دستاویزات اور اعداد و شمار کی معتبریت پر آج تک کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا ہے۔ بھارت میں اس کی موجودگی ملک کے لئے ہی باعث تفخر تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے اپنی بساط لپیٹ کر اسٹاف کو خیر باد تو کر دیا ہے، مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھارت جیسا کثیر الجہتی ملک اور اس کا تکثیری معاشرہ زیادہ دیر تک ایمنسٹی جیسی تنظیم کے لئے اپنی سرحدیں بند نہیں رکھ سکتا۔

مزید :

رائے -کالم -