ازسر نو اسلام
وہ ایک حیر ت انگیز شخص تھا، انقلابی نظریات،تلخ حالات، جانگسل احساسات اور سبق آموز واقعات کا امین، وہ بے اصل و بے نسل لوگوں جیسا نہیں تھا جو موقع پرستی میں طاق ہوتے ہیں ادھر لقمہ تر ہاتھ لگا ادھر اجتماعیت کا فلسفہ اور سندر جذبے نقش برآب ٹھہرے، کہاں کا انقلاب، کیسا تغیر؟اسے عجیب طرح کا آدمی کہنا چاہیے، کوئی عہدہ،کوئی منصب، کوئی لالچ اور کوئی دباؤ خرید نہ سکا،تہی دست،خوددار،اورو باوقار ہونا واقعی عجوبہ اور بڑا پن ہے سچے نظریاتی لوگ ہی تو عدم مصلحت پسند اور مقتل جبرو اکراہ میں پورے قد سے کھڑ ے رہا کرتے ہیں۔
میر ی ان سے ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کے چہرے پر جھریوں نے ڈیرے جمانا شروع کردیئے تھے اس عہد میں بھی فکر ونظر کا بانکپن کب بھولتا ہے،ان سے ملتا ایک بالکل نیا تجربہ تھا،اجنبی باتوں کے کئی ذائقے چکھے،وہ تو اپنی فطرت میں گویا ایک انوکھی انجمن تھا۔محفل میں لیکن تنہالگتا شاید ہمیشہ سے اکیلا فی الواقع ہر کوئی اکیلا ہوتا ہے، اکیلے ہی آنا اور جانا قانون قدرت ٹھہرا،مگر یہ معرفت کم اور بہت کم کھلتی ہے،جو سفر حیات میں اکیلا نہیں ہو،فکری نشوونما میں ادھورا قرار پایا پورا ہونے کے لئے ہمسفروں سے آگے نکل جانا،شرط اول ہے،بلندیوں کی راہ اور چاہ میں کئی خوشگوار عذاب بھی اترتے ہیں، ارتقاء میں خلوت فطرتی اعزار بھی ہے، امتیا ز بھی۔
اس کے طرز بودو باش عام سی تھی،بلکہ عام سے بھی عام،لیکن حقیقت میں عامیانہ دائروں سے بیگانہ، وہ فکر و نظر اور علم کے سوا بڑائی کسی چیز کوجانتا اور مانتا ہی نہ تھا،پھر علم کی سطح پر عمل! الغرض وہ اپنی وضع قطع میں ہر جدت سے منفرد تھا۔حافظ آباد جیسے دشت میں شہر کہنا جائز مناسب ہی نہیں،موزوں بلکہ موزوں ترین ہے چند باکمال مشاہیر سے منسوب ہے، فہرست کے آخری حصہ میں محمداقبال بٹ بھی شامل ہوتے ہیں، بعض کامریڈ کے لاحقہ سے بھی جانتے پہچانتے ہیں یہ مگر وہ نہیں جو صر ف اقبال کامریڈ تھے، وادیئ سیاست کے نظریاتی خارزار کے مقامی گلی کوچوں میں نام کمایا اقبا ل بٹ لکھتا تو نہیں تاہم پڑھتا اور بولتا بہت زیادہ تھا۔اس کے یہ تیوربڑھاپے کی سمت قدم اٹھا کر بھی قائم ودائم رہے!ان کی کہانی کا ایک ورق ان کی زبانی سنیئے۔
”گوجرانوالہ سے پرانے سرگودھا روڈ پر حافظ آباد سے پہلے ایک قصبہ نوکھر میں آنکھ کھولی،ستر کی دہائی میں جامعہ پنجاب سے گیسوئے اکنامکس کے پیج و خم میں الجھا،داس کیپٹل؛(سرمایہ)پڑھنے لگا تو اسی کا ہو کے رہ گیا، اسے حرف بہ حرف کھنگالا اور لفظ بہ لفظ چبایا، جانا شاید غریبوں کے دکھ درد کا کوئی علاج ڈھونڈ نکالا ہے اسلام اور حضر ت ابوذر غفاری کے معاشی فکرونظر سے بعد میں آگاہ ہوا،جن دنوں پاکستان پیپلز پارٹی طلوع ہوا چاہتی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو شہید نے مرحوم و مظلوم طبقات میں گویا آگ لگادی،میں بھی اسی کشمکش میں کودپڑا میرے پاس بھی زبان، بیان کی تلوار تھی،جوش
انقلاب میں کہاں کہاں نہیں گیا، اور کیا کیا نہیں کیا؟
وہ اداس رات مجھے آج تک یاد ہے، دن بھر کی مہم سے تھکا ہار ا گھر آیا تو ماں جاگ اور رو رہی تھی، سبب پوچھا تو بولی، تمہاری زندگی کورو رہی ہوں فلاں مسجد کے مولوی صاحب نے جمعہ میں فتویٰ دے دیا ہے کہ تم منکر خدا،کافر اور واجب القتل ہو، جو اسے جہنم رسید کردے،وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا، مجھے ڈر ہے کہ تجھے کسی وقت کوئی بھی مار دے گا میں نے، اقبال بٹ بتاتے تھے، اداکار انہ زندہ دلی کا مظاہرہ کیا اور ماں کو جھوٹی موٹی تسلی دی کہ کچھ نہیں …… ہونے والا، صبح سارا معاملہ سلجھ جائے گا، نیند آنکھوں کے قریب کہاں پھٹکتی،دراصل انداز بجھ سا گیا تھا،ہوا مگر یہ کہ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ایک عمدہ ترکیب سوجھی،دِل مطمئن سا ہو گیا،اٹھا، خنجر نیفے میں اڑسا، اور ان مولوی صاحب کے گھر جاپہنچا،جبکہ وہ بعداز نما ز تشریف لے آیا کرتے تھے، آتے جاتے اکا ّدکاّ افراد نے بھی مجھے یہا ں دیکھا، کل کے فتوےٰ کی بدولت گلی میں ہی رک گئے، خیر دروازے پر دستک دی، وہ آتے دیکھا تو فرمایا مردو د! تو یہاں؟ عرض کیا، حضور! آپ نے جمعے میں یہ فتویٰ ثبت کیا ہے فرمایا، کیا غلط ہے؟ بولا نہیں،جناب!اسی لیے توحاضر ہوا اور آلہء قتل بھی ساتھ لایا ہوں قتل کر دینے کے اس نیک عمل کا ثواب اور جنت کوئی اور نہ لے جائے لے جائے بسم اللہ کیجئے اور گنہگار کو مار دیجئے!یہ دیکھا تو مولوی صاحب نے کچھ سخت کلمات فرمائے، اور اندر سے جھٹ کواڑ بند کردئیے یہ ماجرہ دیکھا تو وہ آدمی میرے نزدیک آگئے،میں ان کی جانب متوجہ ہو ا اور کہا آپ نے بچشم خود دیکھ لیا نہ کہ یہ لوگ ثواب اور جنت بیچتے تو ضرورہیں مگر خود خرید تے بالکل بھی نہیں دن چڑھنے تک ان کی تقریرکا منفی اثر زائل اور شاید میں بھی از سر نو مشر ف بہ اسلا م ہوچکا تھا۔