مٹھی سے پھسلتی ریت
ستم ظریف منچلے2018ء میں جہانگیر ترین کے اُس جہاز کی تصویریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں جو مختلف شہروں سے ارکان اسمبلی کو لے کر بنی گالا پہنچا رہا تھا، جہاں کپتان انہیں پی ٹی آئی کے پرچم والا ”دوپٹہ“ پہناتے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے آج ایک اور وکٹ گر گئی ہے۔آج بنی گالا کی جگہ سندھ ہاؤس نے لے لی ہے اور وہی ارکانِ اسمبلی جو کبھی آزاد الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچے تھے آج پی ٹی آئی کی قید سے آزاد ہو گئے ہیں۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔فواد چودھری تو ان ارکان پر اس طرح آگ بگولہ ہو رہے ہیں جیسے تحریک انصاف کے بانی رکن ہوں، وہ خود بھی تو کئی جماعتوں کا پانی پی کر آج تحریک انصاف میں ہیں۔ حالات جب پلٹا کھانے لگتے ہیں تو سب کچھ ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتا نظر آتا ہے۔سندھ ہاؤس میں موجود کئی ارکان اسمبلی تو ایسے ہیں جو پچھلے کئی ماہ سے اپنی جماعت اور اس کی حکومت پر تنقید کر رہے تھے،اُن کی داد رسی کرنے کی بجائے کسی کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اور کسی کو دوسرے طریقوں سے رام کرنے کی کوشش کی جاتی ر ہی۔کل ایک رکن اسمبلی کہہ رہے تھے وہ ایک سال سے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملنے کی کوشش کر رہے ہیں،مگر کامیاب نہیں ہوئے،آج وہ اگر ہلکی سی بھی خواہش کریں کہ اِن دونوں شخصیات سے ملنا چاہتے ہیں تو شاید اُن کے لئے چارٹر جہاز بھیج دیا جائے،وقت وقت کی بات ہے اور اسی کا نام سیاست ہے۔اقتدار میں رہ کر انسان کے مزاج بدل جاتے ہیں،کپتان تو ویسے ہی اپنے وفادار ساتھیوں سے دور ہوتے گئے،یا اُن کے اردگرد موجود کاریگر مشیران نے اُنہیں دور کر دیا۔
تحریک انصاف میں دراڑ تو اُسی وقت پڑ گئی تھی جب جہانگیر ترین کو عمران خان سے دور کیا گیا۔یہ سازش کس نے کی اور عمران خان اسے کیوں نہیں سمجھ سکے،یہ تو اب تاریخ کا حصہ ہے،تاہم آج جو لوگ بڑھ چڑھ کر عمران خان کا دفاع کر رہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ غصے میں گالیاں تک دے رہے ہیں،وہ ایک ناراض رکن کو بھی منانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف میں کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو روٹھے ہووؤں کو منا کر واپس لا سکے۔سب انہیں بے ضمیرے،بکاؤ مال،گھوڑے اور خچر قرار دے رہے ہیں،بھلا اس سے بات بنتی ہے،بات تو بگڑنی تھی سو بگڑ چکی۔آج جہانگیر ترین جیسا کوئی دوست عمران خان کے ساتھ ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی،جنہوں نے جہانگیر ترین جیسے شخص کو کپتان سے دور کیا آج وہ شاہ کے سب سے بڑے وفادار بنے ہوئے ہیں،حالانکہ بحران سے نکالنے کی اُن میں رتی بھر صلاحیت موجود نہیں۔اپوزیشن نے بڑی مہارت سے اپنے پتے کھیلے ہیں۔سندھ ہاؤس میں میڈیا کو بلانا بھی اسی مہارت کا کرشمہ ہے۔اس عمل سے جہاں ایک طرف یہ اندازہ ہو گیا کہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے وہیں یہ عقدہ بھی حل ہو گیا کہ ان ارکانِ اسمبلی کو کسی نے زبردستی نہیں رکھا ہوا،بلکہ یہ اپنی مرضی سے اور حکومت کے خلاف جھنڈا اٹھا کر وہاں موجود ہیں۔ایک ٹی وی چینل پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے ایک منحرف اقلیتی رکن کو جو گالیاں دی ہیں انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ عمران خان نے اپنے اردگرد جو ہیرے اکٹھے کئے ہیں وہ اُن کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ان لوگوں کے نرغے میں آ کر عمران خان نے اپنے ہی ارکانِ اسمبلی سے جو دوری اختیار کی آج وہ اُن کے سامنے ایک ڈراؤنا خواب بن کر کھڑی ہے۔
حالات کو دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ گیم از اوور، دوسرا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں کہ ووٹ آف نو کانفیڈنس سے بچ کر موجودہ حکومت اپنا کام کرتی رہے،ایک بار تو اِس مرحلے سے گزرنا ہی پڑے گا۔یہ مرحل بہت کڑا ہے،اتحادیوں نے پہلے ہی اپنے مطالبات کی ایک فہرست پکڑ رکھی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر ہی بغاوت دیکھ کر اب انہیں یہ اندازہ بھی ہو گیا ہو گا کہ حکومت کو شاید اُن کی حمایت بھی نہ بچا سکے،اس لئے وہاں سے تو انہیں کچھ ملنے کو رہا،البتہ اپوزیشن کی طرف سے مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم کو اب بھی بہت کچھ مل سکتا ہے،چودھریوں نے فیصلہ کرنے میں دیر کر دی ہے،اب انہیں شاید وہ پیکیج نہ مل سکے جو شروع میں مل سکتا تھا،تاہم پھر بھی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے انہیں اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو اس کے لئے اپوزیشن ہی انہیں کچھ دے سکتی ہے۔اُدھر ایم کیو ایم کو آصف علی زرداری نے دامن کھول کر گلے سے لگایا ہے، سندھ میں وہ کچھ دینے کی حامی بھری ہے جس کا ایم کیو ایم پہلے تصور بھی نہیں کر سکتی تھی،اس کی وجہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری ایک سیاسی آدمی ہیں وہ جانتے ہیں کس وقت کہاں نقب لگانی ہے۔سیاست میں لچک نہ ہو تو وہ ایک خشک لکڑی ہے جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے،تحریک انصاف کی مثال سب کے سامنے ہے۔حیرت ہے کہ وزیراعظم اور اُن کے قریبی ساتھیوں کو اس بات کا ادراک ہی نہ ہو سکا کہ اُن کے اندر ایک بغاوت پنپ ہی ہے۔وہ غرور و تکبر کے غبارے میں مبتلا رہے اور اپوزیشن اُن کے نزدیک ایک ایسے ناکام لوگوں کا ٹولہ رہی جو اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔
سیاست کا جھکڑ اس وقت پورے زور کے ساتھ حکومت کے خلاف چل رہا ہے۔اس جھکڑ کو عوامی جلسوں سے ناکام نہیں بنایا جا سکتا،جس طرح ایوان میں حکومت کی پوزیشن موجود ہو تو مخالف جماعتیں سڑکوں پر لاکھوں افراد کا اجتماع بھی کر لیں تو اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں،اُسی طرح جب حکومت ایوان کے اندر کمزور ہو جائے تو ایوان کے باہر دس لاکھ افراد کا ہجوم بھی اُسے آئینی طور پر نہیں بچا سکتا۔وزیراعظم عمران خان کے مشیروں نے تحریک عدم اعتماد کے بعد یہ حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ دے کر کپتان کے شوقِ خطاب کی تسکین کا تو اہتمام کر دیا،مگر کپتان کو یہ نہیں بتایا کہ اِن دس لاکھ افراد پر وہ دس منحرفین بھاری ہیں جو اُن سے ناراض ہو کر سندھ ہاؤس میں بیٹھ گئے اور اپنے ووٹ سے حکومت کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔