ذرا تُم دام تو بدلو

ذرا تُم دام تو بدلو
ذرا تُم دام تو بدلو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وقت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی ایسا بھی وقت تھا لوگ چھوٹے بڑے کا لحاظ کر کے بولتے تھے۔ بولنے سے پہلے یے بھی دیکھتے تھے کہ کوئی غیر تو نہیں بیٹھا؟ لیکن اب ہر بات ڈنکے کی چوٹ پر کیمرے کے سامنے سے لیکر عوامی اجتماعات میں بغیر کسی خوف کے کہی جاتی ہے۔ داخلی خارجی و سکیورٹی معاملات سب کے سامنے زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار تو حساس معاملے بھی چھیڑے جاتے ہیں۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر ہر باشعور انسان کا سر شرم سے جھک رہا ہے۔ حکومتی ارکان کی تڑیاں ہوں یا حزب اختلاف کا رویہ پر سب حیران ہیں۔
88 کی الیکشن بعد کی سیاست میں جو ہوتا رہا وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ ہم میں سے اکثریت نے اس دور میں ہوش سنبھالا۔ سیاست میں ظاہر و باطن کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ الیکشن میں کامیابی سے لیکر حکومت کے خاتمے تک ہر ہارنے والا اور ہر جانے والا باطنی ہاتھوں کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ ہر حکومت کے خاتمے کو بیرونی قوتوں کی سازش قرار دینے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ ہماری سیاست کی ابتدا سے انتہا تک الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ 2018 کی الیکشن سے پہلے عمران خان کی جانب سے قوم کو جو خواب دکھائے گئے تھے وہ اتنے خوبصورت تھے کہ ان میں حقیقت کا گمان ہونے لگا۔ پونے چار سال تک قوم نے ان خوابوں کی مثبت تعبیر کیلئے صبر کا دامن پکڑ رکھا ہے۔ اس عرصے میں عوام کیلئے کوئی ایسا کام نہیں ہوا جس پے حکومت فخر کرے یا عوام خوشی کا اظہار کر سکے۔ مہنگائی دن بدن آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ مافیہ کسی کے قابو میں آنے کا نام لے رہی۔ بدامنی و دہشتگردی میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں غیر مستحکم سیاسی صورتحال کی وجہ سے لوگ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔جمہوری ملک میں جمہور کی بات سنی جاتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ہمارے پاس طاقتور کی بات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ طاقتور جو سوچتے یا کہتے ہیں وہی ہوتا ہے جس کی کافی مثالیں موجود ہیں جن کی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں۔
 سیاست میں اصولوں سے زیادہ مفادات کا طوطی بولتا ہے۔ پچاس سے سو ایسے لوگ ہیں جو ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی حکومت میں پچاس کے قریب ایسے لوٹے میمبر ہیں جو مختلف پارٹیوں کا گشت لگا کر تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ پارٹیز تبدیل کرنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کا تعلق سندہ پنجاب بلوچستان اور کے پی کے کے قبائلی علاقوں سے ہوتا ہے یا وہ لوگ جو مخصوص اشاروں کی زبان سمجھتے ہیں۔ اشارا ملتے ہی اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں پارٹی سے زیادہ شخصیت کو اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ ہمارے لوگ اپنے پیر مرشد یا سردار کو اپنا زمینی خدا مانتے ہیں۔ ان کے حکم پر کسی کو پیٹنا قتل کرنا اغوا کرنا تو معمولی بات ہے۔ ایسے ماحول میں ووٹ کے آزادانہ استعمال کا دل میں خیال لانا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت کی اگر وفاقی کابینہ کو دیکھیں تو اس میں بھی کافی اہم وزیر صاحبان بذات خود بڑے لوٹے ہیں جن میں شاہ محمود قریشی شیخ رشید فواد چودھری خسرو بختیار پرویز خٹک وغیرہ وغیرہ۔ جب  لوٹے دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے تو اصولوں کی بات کرنے والے خان صاحب اس وقت ان کے اس فیصلے کو ضمیر کا فیصلہ کہتے رہے۔ اب جب انہی لوگوں نے خان صاحب سے آنکھیں پھیر لیں تو وہ ضمیر فروش ہو گئے۔ کسی کے گھر جلنے پر خوش ہونے والوں کو سوچنا چاہئے کہ گھر ان کے پاس بھی ہے اور آگ دوسروں کے ہاں بھی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مفاد پرست کسی کے نہیں ہوتے وہ ہمیشہ اپنے مفاد کو دیکھتے ہیں ان کے ہاں ضمیر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ضمیر فروشی کا یہ دھندہ  تب ختم ہوگا جب ہم مفادات کی سیاست کو چھوڑ کر اصولوں کو اہمیت دینگے یا اشاروں پر ناچنے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے توبہ کریں۔ جمہوری ملک کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ جمہور کیا چاہ رہا ہے؟ جمہور کیلئے کیا کیا جا رہا ہے؟کبھی چھانگا مانگا کی باتیں ہوتی تھیں اب سندہ ہاؤس اسلام آباد بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ جہانگیر ترین کے اہم رکن سابقہ پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ ریاض نور عالم خان سردار ریاض محمود مزاری سمیت کافی میمبران کے منظرعام پر آنے کے بعد بڑی بڑی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہیں سندہ ہاؤس میں ممکنہ آپریشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو کہیں سے سندہ میں گورنر راج کی بات سن رہیں ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہر ناکام حکمران کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب انا پرست ہونا، کانوں کا کچہ ہونا خوشامد کرنے والوں کو اہمیت دینا یا سب ٹھیک کہنے والے درباریوں کا ہونا ہے۔ اس وقت خان صاحب کی ناکامی کے کیا وجوہات ہیں اس کا فیصلہ تو انہوں نے خود کرنا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں خان صاحب کو اپنے الفاظ و واعدے گلے میں پڑ گئے کیونکہ خان صاحب نے خود کہا کرتے تھے کسی دوسری پارٹی کے لوٹے کو نہیں لونگا، آزاد کو اپنے ساتھ نہیں ملائونگا، شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی نہیں رکھونگا، اگر میرے خلاف پچاس لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئے تو استعفیٰ دے دونگا، اگر کوئی میمبر مجھ پر اعتماد نہیں کرتا تو اسے پورا حق ہے وہ میرے خلاف ووٹ دے۔ اب اگر ان باتوں کا تقابلی جائزہ لیں تو خان صاحب نے سب باتوں کا الٹ کیا ہے۔
اب خان صاحب کو بڑا سیاسی فیصلہ کرنا پڑے گا وہ بڑا فیصلہ یہ ہے کہ عزت کے ساتھ استعفیٰ دے کر گھر جائیں اور ایک نئے ولولے کے ساتھ واپس آئیں۔
یہاں تہذیب بکتے ہیں یہاں فرمان بکتے ہیں۔
ذرا تم دام تو بولو یہاں ایمان بکتے ہیں۔
,حکومت کی جانب سے منحرف ارکان کا راستہ روکنے کیلئے سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے کہ آرٹیکل 63 A کی تشریح کی جائے۔ حالانکہ یہ وقت ضائع کرنے کا ہربا ہے سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آنکھوں پر لیکن میں سمجھتا ہوں کہ 63 A کے تشریح کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس شق میں واضح لکھا ہوا ہے کہ فلور کراس کرنے کے بعد کوئی کاروائی ہو سکتی ہے۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   

مزید :

بلاگ -