اس حمام میں سب ننگے ہیں

اس حمام میں سب ننگے ہیں
اس حمام میں سب ننگے ہیں
سورس: File

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 سیاست کے نام پر"ضمیروں کی خرید و فروخت" کسی" کالے دھندے" سے کم نہیں مگر کیا کریں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔۔۔کون سی جمہوریت اور کہاں کا آئین؟؟؟اپنے اپنے دور میں وفاداریاں خریدنے اور بیچنے والے "حضرات گرامی قدر" جب ایک دوسرے کو" ہارس ٹریڈنگ" کے طعنے دیتے ہیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے کہ چھاج بولے تو بولے،چھلنی بھی بولی، جس میں ستر چھید۔۔۔!!!!

اسد اللہ خاں غالب نے کہا تھا:

وفاداری بہ شرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

"تبدیلی کے علم بردار"عزت مآب کپتان کا ہی حال دیکھ لیں کہ انہیں اب اچانک "ضمیر"یاد آگیا ہے۔۔۔فرماتے ہیں کہ الیکشن کمیشن سے پوچھتا ہوں کیا آئین میں ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہے؟؟؟کاش وہ یہ سوال ساڑھے تین سال پہلے پوچھتے جب عالی جاہ جہانگیر ترین کا" ذاتی جہاز" اپنے خرچ پر ملک کے کونے کونے سے "باضمیر لوگوں" کو بنی گالہ ان کی "خدمت عالیہ" میں پیش کر رہا تھا اور وہ ان کے گلے میں "رنگ برنگا مفلر" ڈال کر انہیں "گلے" لگا رہے تھے۔۔۔اس سے کچھ عرصہ پہلے جب وہ ہر روز اپنے جلسوں میں اس" بندے توڑ عمل "کو دوسروں کی وکٹیں گرانے کا نام دیکر خوشی سےپھولے نہیں سماتے تھے۔۔.عجیب "تیز رفتار بائولر" کہ جسے علم ہی نہیں کہ اگلی باری دوسری ٹیم کی ہوتی ہے اور ان کے پاس بھی اچھے بائولرز ہو سکتے ہیں جو سیدھا سیدھا کلین بولڈ کرکے پویلین بھجوادیتے ہوں...!!!!
کاش خان صاحب یہ سوال الیکشن کمیشن نہیں "اپنے ضمیر "سے تب پوچھتے جب وہ بنی گالہ میں ہی صوبے کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ کے چند ارکان پنجاب اسمبلی کو "شرف ملاقات "بخش کر "بزدار سرکار" کا کسی "انجانے خوف "سے "حصار "فرمارہے تھے...!!!گوجرانوالا کے "انصاری برادران " کی قیادت میں "منحرف" ہونے والوں میں "شہر یاراں" شکرگڑھ سے" ہمارے حضرت صاحب" بھی تھے...وہی "حضرت صاحب" جو پہلی مرتبہ "شیر کا نشان "ملنے پر "دیوانے" سے ہو گئے تھے...اب کوئی جو مرضی کہتا پھرے مگر "گرائونڈ ریالٹی" یہ ہے کہ جناب کو دو ہزار تیرہ اور اٹھارہ میں ن لیگ کا ٹکٹ نہ ملتا تو کبھی نہ جیت پاتے...اللہ والوں سے وابستہ با کردار آدمی تھے...زندگی بھر"ناجائز تعلقات "سے گریز کیا...نا جانے کیا ہوا کہ " ماسٹر رفیق "ایسے "فرسودہ مشیروں" کے "جال" میں پھنس کر "اجلا دامن "داغدار کرلیا۔۔.اب بھی عین اس وقت جب خان صاحب ہارس ٹریڈنگ کی دہائیاں دے رہے ہیں کہ" ن لیگ کے باغی "شرقپوری صاحب "جلال" میں آکر فرما رہے ہیں کہ میرے سمیت منحرف ایم پی ایز بزدار کیخلاف ووٹ نہیں دینگے۔۔۔خان صاحب !مخالف جماعت کے اس "گدی نشین "کی "اندھا دھند عقیدت"کو  کیا نام دینگے...کیا یہ بھی "فلور کراسنگ" کے زمرے میں آتی ہے یا یہ کوئی"روحانی تجارت" ہے۔۔۔؟؟؟؟کسی نے کیا خوب کہا:

تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی


پھر عرض ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں...تھوڑا سا پیچھے جائیں تو شہباز دور حکومت میں ق لیگ کے" باغی ارکان" اسی طرح "عزت دار "ٹھہرے ...بدقسمتی کہ گجرات کے چودھریوں کے خوف سے تشکیل پانے والے  "فارورڈ بلاک" میں بھی شکرگڑھ سے رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر طاہر علی جاوید پیش پیش تھے...یہ وہی صاحب ہیں جن کے والد گرامی جناب ڈاکٹر نعمت علی جاوید کو جناب انور عزیز مرحوم انگلی پکڑ کر سیاست میں لائے اور پھر اپنے ممدوح "ایٹمی سائنسدان" سے " گہرے زخم" کھائے...امریکہ پلٹ ڈاکٹر طاہر کو پرویز الہی کابینہ میں وزارت صحت کا قلمدان دیکرعزت دی گئی مگر وہ بھی اگلے "منظر نامے" میں "مخالف کیمپ"میں" تشریف فرما" تھے۔۔.یہ بھی گرائونڈ ریالٹی ہے کہ وہ اور ان کے والد یوسی ناظم  بھی نہ بنتے اگر ان کے پاس سائیکل کا انتخابی نشان اور انور عزیز کا "دست شفقت" نہ ہوتا۔۔۔گردش ایام دیکھیے کہ پھر ڈاکٹر صاحب نااہل ہوئے تو ضمنی الیکشن میں ان کے والد گرامی کو "بغاوت" کے صلے میں ن لیگ کا ٹکٹ دیا گیا لیکن وہ ہار گئے...پھر باپ بیٹا پی ٹی آئی میں چلے گئے لیکن عوام نے انہیں اگلے دو انتجابات میں بھی مسترد کر دیا۔..پڑھے لکھے لوگ تھے...افسوس روایتی سیاسی بکھیڑوں میں الجھ کر قصہ ماضی بن گئے۔۔.!!!!

پھر عرض ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں...تھوڑا اور پیچھے مڑ کر دیکھیں تو "مکا بردار" پرویز مشرف کی "چھتری" تلے ق لیگ کے دور میں اپنے مفاد کے لیے پیپلز پارٹی سے "پیٹریاٹس" نکالے گئے۔۔۔عجب تماشا کہ اپنے مرکز سے "غداری "کرنے والوں کو "محب وطن" کا نام دیکر عزت بخشی گئی۔۔۔سید فیصل حیات کی سیادت میں کچھ عرصہ یہ برانڈ بھی خوب چلا مگر کب تک...!!!

پھر عرض ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں...عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے ہنگام اب زرداری صاحب سندھ ہائوس میں پی ٹی آئی کے" باضمیر ارکان "کی "میزبانی" فرما رہے ہیں تو خان صاحب کےخوشامدی وزیر، مشیر" لال پیلے" ہو رہے ہیں...؟؟؟بھائی وہ تو" گھوڑوں کے شوقین" اور "اصطبل" رکھتے ہیں...موصوف کے نزدیک تو معاہدے قرآن و حدیث بھی نہیں...پھر ہنگامہ کیسا۔۔۔؟؟؟؟یہ سیاست کے باب میں"مکافات عمل" ہے..."جو بیجو گے وہ کاٹو گے"...کچھ نے کاٹ لیا...کچھ کاٹیں گے....قانون قدرت سب کے لیے یکساں ہے...کسی کو استثنا نہیں۔۔۔شومئی قسمت کہ نئے"باضمیر قافلے" میں شکرگڑھ سے پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی وجیہہ قمر بھی شامل ہیں...آواز خلق ہے کہ یہ محترمہ کونسلر بننے کی اہل بھی نہیں مگر تحریک انصاف نے انہیں ایم این اے بنوایا لیکن وہ بھی" بے وفا" نکلیں۔۔۔کیا کریں لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں...!!!

"لطیفہ" ہی سمجھیے کہ ملک میں کوئی" سیم پیج" پر ہو نا ہو مگر مشرقی شہر کے یہ تینوں سیاستدان اپنی اپنی پارٹی سے "انحراف کے باب" میں "ایک صفحے"پر آگئے ہیں...آپ انہیں "ہم خیال گروپ" بھی کہہ سکتے ہیں...!!!

چلتے چلتے "اہل وفا" کی بات بھی کرلیں...سیاست کی " منڈی"ہو یا کوئی اور بازار، کچھ لوگ واقعی انمول ہوتے ہیں۔۔۔"بے وفائی کے موسم "میں پسرور کا "باوفا راجپوت" ہمیشہ حوالے کے طور پر یاد رہے گا۔۔.رانا لیاقت علی 2013 میں پسرور سے ن لیگ کے ایم پی اے تھے...2018میں انہیں" اپنوں" کی "رکاوٹ" کے باعث ٹکٹ نہ ملا۔۔.وہ آزاد ہی میدان میں اترے اور بڑے مارجن سے جیت گئے...ترین صاحب کا جہاز انہیں بھی بنی گالہ لے جانے کے لیے "منڈلاتا" رہا... رانا صاحب کو بھی وزارت کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی پیشکش تھی...انہوں نے کمال بے نیازی سے "پرکشس نیازی پیکیج "ٹھکرایا اور خواجہ آصف کے ساتھ ماڈل ٹائون پہنچ کر اپنی فتح ن لیگ کے نام کردی۔۔۔!!!

کوئی سیکھنا چاہے تو اپنے وقت کے بڑے سیاستدان مولانا ابو الکلام آزاد کی 30 سیکنڈ کی تقریر بڑی سبق آموز ہے...کہتے ہیں مولانا کلام ایک مرتبہ ٹرین پر کسی علاقہ کے سفر پر تھے۔۔۔ لوگوں نے تقریر کی فرمائش کر دی...امام الہند نے فرمایا کہ آپ کے سٹیشن پر ٹرین دومنٹ رکے گی... آپ کانفرنس کا اہتمام کر لیں... اتنے وقفے میں جو ممکن ہوا کہہ دوں گا۔۔.عوام کا جم غفیر تھا کہ دیکھیں اتنے مختصر وقت میں عہد ساز خطیب کیا کہتا ہے ... گاڑی پلیٹ فارم پر رکی...مولانا تیز قدموں سے چلتے ہوئے باہر جلسہ گاہ پہنچے.... قرآن پاک کی آیت  تلاوت فرمائی اور 30 سیکنڈ گفتگو میں فرمایا:خوب سوچ سمجھ کر، چھان پھٹک کر، غور وفکر کرکے ایک موقف اختیار کرو پھر اس پر ڈٹ جاؤ، یہی میری تقریر ہے...!!!
 
بلاشبہ مولانا کلام کی تاریخ ساز تقریر حرف حرف سچ اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہے مگر المیہ یہ ہے کہ "معدے سے سوچنے" کی عادت پڑ جائے تو پھر "دل و دماغ کی باتیں" زہر لگتی ہیں...ایسے میں کون سا عہد وپیمان اور کون سا نظریہ۔۔!!!

نوٹ: یہ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -