ایندھن لوگ

ایندھن لوگ
ایندھن لوگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ عموماً پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں قومی اور عوامی مسائل پر احتجاج و اختلاف کرتے تھے - ایسے میں بعض اوقات اعتدال کا دامن بھی چھوڑ دیتے اور اخلاقیات کو بھی آنکھیں دکھا دیتے تھے مگر یہ عارضی سی لغزش ہوتی تھی۔ سیاست پہ نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ مناسب حد تک سیاسی تناؤ جمہوریت کے عمل کا اہم حصہ ہے۔ مگر اب تو مخاصمت اور مسابقت اتنی تلخ ہو گئی ہے کہ آج ہر فریق مصر ہے کہ مخالف ملک دشمن ہے اور اگر وہ اقتدار حاصل کر لے گا تو ملک و قوم کو تباہ کر دے گا۔ خود کو حب الوطنی کا ایسا نایاب و یگانہ علمبردار قرار دے دیتے ہیں جو ملک کی فلاح و ترقی کے لئیے ناگزیر ہوتا ہے۔  ظاہر ہے جب ایسی سوچ ہو  تو مخالف کو ملک دشمن بنا کر تباہ کرنا حتمی مقصد بن جاتا ہے۔ نتیجتاً جمہوریت بد نما ملاکھڑا بن جاتی ہے جس میں اہلِ سیاست باہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں اور انکے جیالے اور متوالے انکی پیروی کرتے ہوئے دھما چوکڑی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لیڈران تو خود بچ بچا کر اپنے بڑے گھروں میں محفوظ بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں یا اپنی بلٹ پروف گاڑیوں میں مسلح باڈی گارڈوں کے ہمراہ گھومتے ہیں۔ مگر جیالے متوالے اپنے رہنماؤں کے گھروں کے باہر دھول اور ڈنڈے کھاتے ہیں یا انکی شاندار گاڑیوں کے آگے دوڑتے ہوئے ہلکان ہو جاتے ہیں، بعض اوقات اسکے نیچے بھی آ جاتے ہیں۔ مگر رہنما کمال بے نیازی سے انکو ایندھن بنتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اگر کارکن کی لاش مل جائے تو انکی سیاست کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ جواں سال ظلے شاہ نامی سیاسی کارکن اپنے رہنما کے گھر کے باہر موت کا شکار ہو گیا، رہنماؤں نے اسکی موت کو سیاسی چال کے لئیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر لی مگر اسکے گھر جا کر فاتحہ نہیں کہی۔ ظاہر ہے یہ لوگ تو بنے ہی ایندھن بننے کے لئیے ہیں۔ انکو کیڑے اور جانور سمجھا جاتا ہے۔ ایک بات تو طے شدہ ہے کہ ہمارے صاحبِ ثروت لیڈران اپنے بچاو اور تحفظ کے لئیے متوسط اور غریب طبقے کے ورکرز کو ڈھال بنا لیتے ہیں۔رہنماؤں کی نفرت انگیز اور پرتشدد بیان بازی معاشرے میں ایسا زہر گھولتی ہے کہ دوست، رشتہ دار اور ہمسائے آپس میں ناراض ہو جاتے ہیں اور تعلقات منقطع کر لیتے ہیں۔ مگر وہی رہنما رات گئے ایک دوسرے کی پارٹیاں اور عشائیے کا مزہ اڑاتے ہیں اور ہاتھوں پہ ہاتھ مار کر قہقہے بکھیرتے ہیں۔ کارکنان اور عوام یونہی ترش و تلخ بحثوں میں خون جلاتے رہتے ہیں۔ جیالوں متوالوں اور کارکنان کو اس گھناونے جال سے نکلنا ہو گا۔ خود سوچنا ہو گا کہ وہ کیسے ان رہنماؤں کا ایندھن بننے سے بچیں۔ ظاہر ہے آپ دوسروں کی عقیدتوں اور عقائد کو تبدیل نہیں کر سکتے مگر یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ نفرت انگیز پیغامات، اور متعصبانہ تقاریر و بیانات کو مت پھیلائیں تاکہ منافرت نہ پھیلے۔ سوشل میڈیا کی دو دھاری تلوار کو اندھا دھند مت چلائیں۔ ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم جذباتی قوم ہیں لہذا گروہ بندی کا شکار ہو کر اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس عصبیت میں اتنا دور چلے جاتے ہیں کہ دوست دشمن کی تفریق بھی دھندلا جاتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی مخاصمت میں بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈا کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ اس مذموم حرکت میں زیادہ تر تعلیم یافتہ متعصب افراد ملوث پائے جاتے ہیں۔ 


ایک ریسرچ کے مطابق غلط معلومات کی تکرار ہمارے دماغوں کو یہ سوچنے کی طرف لے جاتی ہے کہ چیزیں درست ہیں۔ یہ رجحان اس وقت اور بھی مضبوط ہوتا ہے جب لوگ غلط معلومات کے ایک ٹکڑے پر یقین کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمارا دماغ ایسی معلومات تلاش کرتا ہے جسے ہم سننا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور سرچ انجن، جیسے گوگل، یاھو وغیرہ، اس میں مددگار ہوتے ہیں اور ویسی ہی معلومات اور کلپ نکال کر پیش کر دیتے ہیں۔ ہم اس تکنیکی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ 
ایک حقیقت باعثِ تسلی ہے کہ اگرچہ عوام کی بہت بڑی تعداد ذہنی شدت پسندی کا شکار ہے مگر بہت کم تعداد باہر نکل کر سڑکوں پہ آتی ہے اور چند ہی جان گنوانے کے لئیے آمادہ ہوتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے کیجئیے کہ سوا کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں عمران خان کے گھر کے باہر پولیس سے ٹکراو کے لئیے چند سو لوگ جمع ہوئے جن میں سے اکثریت کو پاکستان بھر سے دھونس اور دھمکی سے یہاں بلایا گیا تھا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریگیڈئیر اعجاز شاہ سے گفتگو سے عیاں ہے کہ ٹکٹ ھولڈرز کو دھمکایا گیا کہ اگر وہ لوگوں کو لیکر عمران خان کے گھر کے باہر نہیں پہنچیں گے تو انکو الیکشن کے لئیے پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گی۔ یہ وطیرہ تمام پارٹیاں اپنے جلسوں کے لئیے اختیار کرتی ہیں۔ مگر یہ عمران خان نے یہ طریقہ ریاست کے خلاف مزاحمت کے لئیے اختیار کیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کو تو عدالتِ عالیہ کی مہربانی سے رعائیت مل جاتی ہے، مگر کارکنان کا کیا بنے گا جن ہر پولیس سے بھڑنے اور توڑ پھوڑ کے پرچے ہو گئے ہیں۔ وہ سالہا سال انہیں تھانے کچہریوں میں بھگتیں گے۔ انکے خاندان پیٹ کاٹ کر وکیلوں کے خرچے اٹھائیں گے۔ کب تک یہ لوگ رہنماؤں کی سنگدلانہ اور بہیمانہ منصوبوں کا ایندھن بنتے رہیں گے۔ کب تک خود غرض رہنما انکے لاغر اجسام کو سیڑھی بنا کر اقتدار کے حصول کے لئے استعمال کرتے رہیں گے،استحصال کرتے رہیں گے؟

مزید :

رائے -کالم -