امتحان دینے سے امتحان لینے تک

انتظار حسین کی مرتب کردہ کتاب ’لطیفے اور چٹکلے‘ میں پڑھا تھا کہ ایک سردار جی نے گھریلو کام کاج کے لیے کسی کو نوکر رکھا۔ شرائطِ ملازمت میں یہ بات بھی تھی کہ اُسے تنخواہ کے علاوہ روٹی اور کپڑا بھی ملے گا۔ کئی سال گزر جانے پر نوکر نے سوچا کہ ہر طرح سے اُس کا خیال تو رکھا گیا ہے لیکن لباس فراہم کرنے کا وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ مطالبہ دُہرانے کی دیر تھی کہ سردار جی نے کہا ”جاؤ، صندوقوں والے کمرے میں بڑی پیٹی کے پیچھے میری ایک پوشاک پڑی ہے، وہ تم لے لو۔“ اب جو تلاش شروع کی تو بڑی کوششوں سے ایک عجیب سا چیتھڑا ہاتھ لگا۔ دھیان سے دیکھا تو ایک پھٹا پرانا کاچھا تھا۔ نوکر حیران ہوا اور واپس آ کر طنزیہ انداز میں کہنے لگا ”تو آپ یہ پوشاک مجھے دینا چاہتے تھے؟‘‘ سردار جی نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا ”نیفہ مضبوط ہے، آگا پیچھا نیا لگوا لو۔“
لڑکپن میں یہ واقعہ مزیدار لگا مگر معنوی اہمیت ایک خاص پہلو سے ہے۔ یہی کہ آزمائش کا کوئی بھی مرحلہ ہو، یہ آپ پر منحصر ہے کہ فیصلہ کرتے ہوئے صورتحال کے کن کن اجزاء پر کتنی توجہ دیں گے۔ جیسے جنگ عظیم والے برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل نے خود نوشت میں اپنا ’توا‘ لگاتے ہوئے درحقیقت اپنے اسکول کی نصابی ترجیحات کا مذاق اڑایا تھا۔ لکھتے ہیں ”امتحان دیتے ہوئے میری تمنا ہوتی کہ جو کچھ اچھی طرح آتا ہے مجھ سے بس وہی پوچھا جائے۔ پھر بھی اساتذہ امتحانی پرچے میں وہ کچھ جاننے کی فکر میں رہتے جو مجھے نہیں آتا تھا۔ یوں اپنی کارکردگی ہمیشہ ناقص رہی، لیکن خوش قسمتی دیکھیں کہ لائق لڑکوں کے برعکس لاطینی اور یونانی زبانیں تو نہ سیکھنی پڑیں، البتہ ایک ہی کلاس میں کئی کئی سال لگانے سے انگریزی کی بنیاد مضبوط ہو گئی۔‘‘ اِس کالم نویس کا حال ونسٹن چرچل سے کچھ ہی بہتر رہا۔
فیل ہونے سے بچنے کی کہانی اتنی ہے کہ دو انگریزی اسکول بھگتا چکنے پر ایک اردو میڈیم سرکاری اسکول میں تین ماہ کے اندر دوسری سے تیسری جماعت میں چڑھا دینے کا جھانسہ دیا گیا تھا۔ جھانسے کی پاسداری بھی کی گئی مگر ذرا آئی ایم ایف کے انداز میں۔ دراصل اگلا سال شروع ہونے پر گرمیوں کی چھٹیوں سے پیشتر کچے امتحانات میں اسکول والوں کو جغرافیہ کا پرچہ لینا یاد نہ رہا۔ میرے والد کی شکایت پر مجھے ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر میں بلایا گیا جہاں کسی نے کہا کہ لڑکے سے اخبار پڑھوا کر دیکھیں۔ مَیں نے ’نوائے وقت‘ کے صفحہء اول کی سرخیاں فر فر سنا دیں۔ ہیڈ ماسٹر میری اردو کی استعداد سے خوش ہو ئے اور اسی ترنگ میں جغرافیہ میں میرے نمبر دس میں سے چار کی بجائے نَو ہو گئے۔ نویں جماعت میں ریاضی کے مضمون میں لڑھکنے کی وجہ قدرے مزاحیہ نوعیت کی ہے۔
اب کے قصور طالب علم کا نکلا۔ وہ یوں کہ ایک ایلیٹ تعلیمی ادارے میں دو ہفتے لیفٹ رائٹ کرنے کے بعد ’آبائی‘ اسکول میں داخلہ تاخیر سے ہوا تھا۔ پھر بھی سہ ماہی امتحان دینے سے پہلے کورس میں کسی تبدیلی سے غافل نہ رہنا ذمہ داری تو میری تھی۔ پر جی،مزید چار برس گزرنے پر سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ لاہور کی کوکھ سے جنم لیتے ہی سرگودھا بورڈ نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ایک سبق آموز باب ہے۔ انٹر میں موسم برسات کا حبس تو یحیی خان کے مارشل لا کا تحفہ سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ مشکل یہ پڑی کہ اِس نوزائیدہ بورڈ نے پرچے حل کرنے کے لیے جو امتحانی شیٹیں فراہم کیں اُن کے کاغذ کی کوالٹی آرٹ پیپر جیسی تھی۔ ہم روشنائی بھرے فاو نٹین پین سے جو حروف لکھتے وہ گچھا مچھا ہو کر سمٹ جاتے یا صفحے کی ملائمت سے اُن کی شکل بدل جاتی۔ تو ہوا کیا؟ یہ اگلے پیرا گراف میں۔
ایک تو یہ ہوا کہ عبارت احتیاط سے جما جما کر لکھنی پڑی۔ سو، تیاری کے باوجود رفتار پرانی تراپڑ تراپڑ مسافر بسوں کی طرح چالیس میل فی گھنٹہ کی حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر فراق گورکھپوری کے الفاظ میں ’دلِ غمگیں کی کچھ محویتیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔‘ میرا دلِ غمگیں اصرار کرتا ہے کہ فاؤنٹین پین استعمال کرتے ہوئے اُس کی کیپ اتار دوں۔ کمرہ ء امتحان میں ایک عمر رسیدہ نگران کو قلم کے حضور میری یہ گستاخی ناگوار گزری۔ قریب آکر رُکے، مجھ سے پین لیا اور کیپ چڑھا کر کہنے لگے ”بیٹا اب لکھو، خط بہتر ہو جائے گا۔‘‘ مَیں نے خاموشی سے تعمیل کردی۔ جب بھی میرے نزدیک سے گزرتے تو قلم کو ٹوپی پہنا دیتا، نظروں سے اوجھل ہوتے تو اپنی اصلیت پہ آ جاتا۔ گویا سارے پرچے فوجیوں کے ’سلام فنگ‘ اور ’بازو فنگ‘ کے انداز میں ہوتے رہے کہ کبھی بندوق اوپر اور کبھی نیچے۔
امتحان کا نتیجہ نکلا تو اس کا لینا دینا دُور دُور تک اِس اچھل کود سے نہیں تھا۔ فرسٹ ڈویژن تو آ گئی مگر رزلٹ کارڈ اپنے جلو میں بعض حیرتیں لیے ہوئے تھا۔ پہلی جھلکی تھی انگریزی کے سوا ہر مضمون میں توقع سے کم نمبر، لیکن زیادہ نمایاں پہلو یہ کہ پانچ میں سے چار مضامین میں نمبر بالکل برابر۔ اب یہ کیسے ممکن ہوا؟ ہر امیدوار کو اپنے اندرونی حالات کا علم ہوتا ہے۔ اکنامکس کے دو سو میں سے صرف ایک سو تئیس تو سمجھ میں آتے ہیں کہ انڈیکس نمبر والے سوال میں میرے فرضی اعداد ہر طرح کی پیچیدگی سے عاری تھے۔ مگر تاریخ میں ایشوری پرشاد، جادو ناتھ سرکار، لین پول اور وی اے سمتھ کے لمبے لمبے اقتباسات کیا ہوئے۔ برسوں بعد بورڈ کے اولین سیکرٹری سے دوستانہ ملاقات ہوئی تو ہمارے پرچے بارش میں دھل جانے والی افواہ کا ذکر آ گیا۔ ہنس کے فرمایا ”ممکن ہے آپ کی اطلاع درست ہو۔“
قدرت نے میرے اِس ناقابل تلافی نقصان کی تلافی یوں کی کہ شعبہ ء تدریس سے وابستگی کی بدولت مجھے پیشہ ور ممتحن بنا دیا۔ زبان و ادب اور نشریاتی صحافت کے جز وقتی استاد کے طور پر یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ میرے زیرِ تربیت شاگردوں کے پراپیگنڈے کی زد میں آکر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی چینل کارکنوں کے ممکنہ چناؤ اور ٹریننگ کے لیے مجھے اعزازی مشیر کے مرتبے پر فائز کر دیتا ہے۔ اعزازی مشاورت کا ایک فائدہ تو اعلی درجہ کی چائے اور کافی کی بہتات ہے اور دوسرا اِس الجھن سے نجات کہ سیلکشن کا عمل مکمل ہونے پر ملک الشعرا اور درباری مسخرے میں سے آخر کا ر کِس کو خلعتِ فاخرہ ملے گی اور کِسے سردار جی کا کا چھا۔ میری تشویش اور نوعیت کی ہے اور وہ یہ کہ ماضی کے سرگودھا بورڈ کی طرح ہماری کسی بے احتیاطی سے امیدواروں کے پرچے پھر بارش میں بھیگ نہ جائیں۔
یہ طے ہے کہ چناؤ میں کسی مرحلے پر طرفداری کا کوئی سوال نہیں، ہر فیصلہ میرٹ پہ۔ پر خوش وضع اور خوش گفتار امیدواروں کے اسکرین ٹیسٹ لیتے ہوئے کسی نہ کسی مرحلے پر وہ برقع پوش بے بس چہرہ بھی سامنے آ کھڑا ہوتا ہے جو پچیس سال ہوئے ایک نامور کالج میں میری میرٹ پالیسی کا انصاف جھیل نہ سکا۔ اُس طالبہ کا کہنا تھا کہ اگر فائنل میں ’سی مائنس گریڈ‘ کسی طرح ’بی پلس‘ میں بدل جائے تو آخری سمسٹر میں اُسے فیس کی رعایت حاصل رہے گی۔ مَیں نے امتحانی پرچے پر بار بار غور کیا مگر دو طویل جوابات میں ایک ایک نمبر بڑھا کر ’سی گریڈ‘ سے اوپر نہ لے جا سکا۔ خاتون جو کسی اسکول میں استانی اور دو بچوں کی ماں تھیں، ایم بی اے بیچ میں چھوڑ کر چلی گئیں اور پھر نظر نہ آئیں۔ یوں لگا کہ پیپر چیک کرنے والے ممتحن کبھی کبھی انسانیت کے ٹیسٹ میں خود بھی فیل ہو جاتے ہیں۔