بلاول کا چانس بن سکتا ہے

  بلاول کا چانس بن سکتا ہے
  بلاول کا چانس بن سکتا ہے

  

 عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ لندن پلان کے تحت نہ صرف انہیں گرفتار کروایا جائے گا بلکہ ان کی نااہلی بھی ہوگی اگرا یسا ہوتا ہے تو بلاول بھٹو کے لئے ایک چانس بن سکتا ہے کہ عمران خان کی نااہلی سے پنجاب میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکیں، اسی لئے آصف زرداری نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ توشہ خانہ میں فردجرم عائد ہونے کے بعد عمران خان کے خلاف شواہد کی بنا پر سزا ہوجائے تو اپنی اگلی چال چلیں، اس سے قبل انہوں نے پنجاب میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کو یقینی بنالیا تھا اور چودھری پرویز الٰہی ان کے امیدوار برائے وزارت اعلیٰ بھی بن گئے تھے مگر پھر واپڈا کے سابق چیئرمین جنرل مزمل نے مبینہ طور پر چودھری پرویز الٰہی کو کسی کا پیغام پہنچایا جس کے بعد وہ بنی گالا روانہ ہو گئے، کچھ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ عمران خان کے جلسوں اور ریلیوں کے لئے بھی واپڈا کے ہی فنڈ استعمال کیے گئے تھے۔ گویا کہ جنرل مشرف کی باقیات نے عمران خان کو اپنا گھوڑا بنا کر نکالا تھا اوراب بھی اس کی ٹہل سیوا میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی روزی روٹی کے چلتے رہنے کا انحصار عمران خان کی سیاست پر ہی ہے۔ 

گزشتہ برس جنوری میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ایک قریبی ساتھی نے راقم سے کہا تھا اب سے 29نومبر تک ساری سیاسی لڑائی اس ایک نقطے پر ہونی ہے کہ عمران خان، آصف زرداری اور نواز شریف میں سے کون اگلا آرمی چیف لگاپاتا ہے اس کے بعد چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان میں خوب دھماچوکڑی مچی، اپریل میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے برخاستگی کے بعد لانگ مارچ کی داغ بیل ڈالی گئی، جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اگلے عام انتخابات تک توسیع کا مطالبہ بھی کیا گیا اور وزیر آباد میں عمران خان پر گولی بھی چلی مگر نواز شریف اور آصف زرداری نے مل کر عمران خان اینڈ کمپنی کو شکست دے دی اور جنرل فیض حمید کی بجائے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف تعینات کردیا گیا، اس کے بعد سے عمران خان کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے اور اب آرمی چیف سے ملاقات نہ ہونے کے بعد تحریک انصاف نے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے، البتہ نواز شریف اور آصف زرداری اس کے لئے تیار نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد ازجلد عمران خان نہ صرف جیل کی ہوا کھائیں بلکہ نااہلی کا تمغہ بھی حاصل کریں۔ 

دوسری جانب عمران خان اور ان کے کرتوں دھرتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ ملک میں جاری بے پناہ مہنگائی سے تنگ عوام میں عمران خان کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بات کو کسی طرح جلد از جلد عام انتخابات کی طرف لے جائیں اور اگر ملک گیر عام انتخابات نہیں بھی ہو پاتے ہیں تو بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کا انعقاد یقینی ہو جائے تاکہ وفاقی حکومت کو وہ یکسوئی میسر نہ آسکے جو ملک کے معاشی حالات سدھارنے کے لئے لازمی ہے۔ ان کرتوں دھرتوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر عمران خان عوامی سطح پر مقبول رہے تو انہیں گرفتار کرنا، سزا دینا اور نااہل کرنا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ دیکھا جائے تو ابھی تک راناثناء اللہ کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کی خواہش پوری نہیں ہو سکی ہے اور اس کے باوجودگزشتہ ہفتے کے دوران اس ضمن میں ایک بھرپور کوشش بھی کی گئی مگر عمران خان کے کارکنوں نے اپنی جان پر کھیل کر پولیس کو زمان پارک میں گھس کر عمران خان کو گرفتار نہ کرنے دیا۔ اس کے بعد عمران خان کی بطور ایک سیاسی حقیقت  اہمیت دوچند ہوئی ہے اور نون لیگ کے لئے لمحہ فکریہ میں تبدیل ہوئی ہے، اسی لئے نون لیگ عمران خان پر فردجرم عائد کروانے کے لئے ہر ممکن حربہ اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس حوالے سے عدالتوں کی ناقد بھی بنی نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو عمران خان اور نہ ہی عدالتیں ابھی تک ثابت کرپائی ہیں کہ نواز شریف عمران خان سے انتقام لینے کیلئے انہیں گرفتار رکرواکر نااہل کروانا چاہتے ہیں چونکہ آرمی چیف نے عمران خان اورصدر عارف علوی کی پوری کوشش کے باوجود ملاقات کے لئے حامی نہیں بھری اس لئے عمران خان کے پاس حکومت کومذاکرات کی دعوت دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ 

اگر حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین بامعنی مذاکرات نہیں ہوتے اور کچھ دنوں بعد عمران خان کو سزا ہوجاتی ہے اور انہیں نااہل کروادیاجاتا ہے تو شاہ محمود قریشی یا اسد عمر میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی عدم موجودگی میں عوامی جلسے یقینی بناسکیں، خاص طور پر جب پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ایک ایک کرکے ہر سرگرم کارکن کو گرفتار کرنے کے درپے ہے،چنانچہ اگرانتخابات کے دوران خان صاحب پابند سلاسل ہو جاتے ہیں تو بلاول بھٹو کو کھلا میدان ملے گا اور وہ عوام میں اپنی کھوئی ہوئی پذیرائی کے لئے پنجاب کے طوفانی دوروں کا آغاز کر سکتے ہیں اور آصف زرداری کے پرانے فارمولے کے مطابق جنوبی پنجاب سے کلین سوئیپ اور سنٹرل پنجاب میں پانچ سا ت سیٹیں نکالنے کاجتن کر سکتے ہیں تاکہ پنجاب سمیت پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کی لگ بھگ ایک سو نشستیں جیت کر اگلے پانچ سال کے لئے ایک اتحادی حکومت بناسکیں، ایسی کوئی بھی صورت نون لیگ کو بھی بھاتی ہے کیونکہ اگر عمران خان اسی طرح کھلے بندوں سیاست کرتے رہے تو لاہور بچاتے بچاتے پورا پنجاب اس کے ہاتھوں سے نکل جائے گا، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں چاہے گی کہ دوبارہ سے جنرل مشرف کی باقیات متحرک ہوجائیں اور ملکی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجادیں  چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ Get Imran Khan پراجیکٹ پر پاکستانی سیاست کے تمام سٹیک ہولڈر اکٹھے ہو چکے ہیں جو بلاول بھٹو کی سیاست کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔

مزید :

رائے -کالم -