عمران خان کی مخالفت اور مریم نواز کی خواہشات

 عمران خان کی مخالفت اور مریم نواز کی خواہشات

  

سیاست میں جب عدم برداشت آ جائے تو پھر ایسے مطالبات بھی سامنے آتے ہیں جیسا مریم نواز نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے ریاست اور ادارے تحریک انٓصاف کو دہشت گرد جماعت کے طور پر ڈیل کریں،اُن کا کہنا ہے تحریک انصاف سیاسی نہیں عسکری جماعت ہے اور زمان پارک میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں، مزید براں انہوں نے تحریک انصاف کو ایک ایسی جماعت بھی قرار دیا ہے جو غیر ملکیوں کے تعاون سے خانہ جنگی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ یہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں کہ مریم نواز کا اول و آخر ایجنڈا عمران خان پر تنقید ہے۔وہ کوئی پریس کانفرنس کریں یا جلسہ ان کی تقریر یا خطاب کا 90 فیصد حصہ عمران خان کی ذات کو نشانہ بنانے پر مشتمل ہوتا ہے۔سیاسی میدان میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور پاکستان میں سیاست ہے بھی اسی کا نام کہ مخالف کو اپنے تیر و تفنگ کے ذریعے عوام کی نظروں میں بے توقیر کرو۔ مریم نواز انہیں ایک زمانے میں سلیکٹڈ، توشہ خانہ، یو ٹرن اور نجانے کیا کیا کہتی رہی ہیں۔اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ کوئی کسی نام سے یاد کرتا ہے مگر اِس بار انہوں نے ایک نئی حد کراس کی ہے اور ایک ایسا مطالبہ کیا ہے جس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ کسے معلوم نہیں کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اور 2018ء کے انتخابات میں عوام کے بھاری ووٹ لے کر اقتدار میں بھی آ چکی ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی مقبولیت میں بھی تحریک انصاف اِس وقت سب سے آگے کھڑی ہے جس جماعت کو کروڑوں افراد کی تائید حاصل ہو اُسے دہشت گرد جماعت کیسے ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے پھر عسکری جماعت کا لیبل بھی تحریک انصاف پر کیونکر لگایا جا سکتا ہے۔یہ درست ہے کہ زمان پارک میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کی ہے مگر اس مزاحمت کو عسکریت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔یہ ایک سیاسی جدوجہد ہے جس پر مزاحمت کا رنگ غالب ہے۔ لندن میں اس وقت تنخواہوں میں اضافے کے لئے ہڑتال اور مظاہر ہو رہے ہیں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی جاری ہیں مگر اسے کسی صورت عسکریت پسندی کا نام نہیں دیا جا سکتا نہ ہی احتجاج کرنے والے دہشت گرد کہلاتے ہیں۔

عمران خان یہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکمران انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں وہ یا مجھے جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں یا قتل کرا کے اپنا راستہ صاف کرنا چاہتے ہیں۔اُن کی بات مبالغہ آرائی بھی ہو سکتی ہے، مگر جب مریم نواز ایسی باتیں کریں گی کہ تحریک انصاف کو دہشت گرد جماعت کے طور پر ڈیل کیا جائے تو اس خدشے کو تقویت ملے گی کہ حکومت کسی نہ کسی طریقے سے تحریک انصاف پر پابندی لگانا اور عمران خان کو سیاست سے آؤٹ کرنا چاہتی ہے۔میرے نزدیک یہ سیاسی انتہا پسندی ہے،سیاسی جماعتوں کو اگر صرف اس لئے دہشت گرد جماعت قرار دیا جاتا رہے کہ وہ ہمارے سیاسی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر اس ملک میں سیاست ایک کھیل بن کر رہ جائے گی۔مریم نواز اچھی طرح جانتی ہوں گی کہ ایسے مطالبات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود غالباً انہوں نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے یہ مطالبہ کیا ہے۔اس سے اُن کے اندر کی تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف وہ نفرت جھلکتی ہے جو آج کل اُن کی سیاست کا محور بنی ہوئی ہے۔جب تک زمینی حقائق موجود نہ ہوں خالی خولی باتوں سے اخبارات کی شہ سرخیاں تو بن جاتی ہیں، عوام پر اُن کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ اب ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماجت بن کر سیاسی افق پر موجود ہے۔ وہ عسکری جماعت ہوتی تو شاید مریم نواز یا کسی بھی سیاسی مخالف کو اُس کی اتنی پروا نہ ہوتی کیونکہ عسکری جماعتوں کا اس ملک میں انجام دیکھا جا سکتا ہے۔اُن کے سب سے بڑے مخالف عوام خود ہیں،اس سیاسی مخالفت میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کا انجام بھی ایم کیوایم جیسا ہونے والا ہے،جس طرح ایم کیو ایم کراچی میں عسکری جماعت بن کر بالآخر اپنا سیاسی قد کاٹھ کھو بیٹھی، اُسی طرح تحریک انصاف بھی زمان پارک میں عسکری مظاہرے کر کے اپنا سیاسی امیج برباد کر رہی ہے۔میرا خیال ہے یہ مماثلت بھی مناسب نہیں۔ تحریک انصاف حملہ آور نہیں ہو رہی بلکہ بوقت ِ ضرورت اپنے پارٹی چیئرمین کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے پھر اُس کی تنظیم صرف لاہور یا زمان پارک تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے اور چاروں صوبوں میں موجود ہے۔

عمران خان پر جتنی تیزی سے مقدمات بنائے گئے ہیں اُن کی وجہ سے بھی یہ تاثر ابھرا ہے کہ انہیں بطور خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس لئے وہ گرفتاری دینے کی بجائے عدالتوں میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں،عدالتیں اگر انہیں بُلا رہی ہیں اور اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف لینے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔مریم نواز کا یہ کہنا کہ اُن کے عدالتوں سے وارنٹ گرفتاری معطل ہو گئے اور انہوں نے قانون کو جوتی کی نوک کے نیچے رکھا ہوا ہے۔اُس عدالتی نظام پر اُن کا عدم اعتماد ہے جس سے خود انہیں بھی بارہا موقع پر ریلیف مل چکا ہے۔اگر عمران خان کے  وکلاء اُن کی ضمانتیں کرانے میں کامیاب رہتے ہیں تو یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور اُن کا حق بھی ہے۔ایک راستہ تو یہ تھا کہ عمران خان قانونی مزاحمت چھوڑ کر گرفتاری دے دیتے،انہوں نے غالباً یہ راستہ اس لئے اختیار نہیں کہ مقدمات کی تعداد90سے زیادہ ہو چکی ہے اگر وہ عدالتوں سے رجوع نہ کرتے تو شاید باقی زندگی اُن کی مقدمات میں پیشی بھگتتے گزر جاتی۔یہ بھی اپنی تاریخ کا واحد دور ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ پر اتنی بڑی تعداد میں مقدمات درج کر لئے گئے ہیں،بہت سے مقدمات تو ایسے ہیں جن میں عمران خا کا براہِ راست کوئی کردار موجود نہیں،انہیں جرم پر اُکسانے یا معاونت کرنے کے الزام میں مقدمے کا حصہ بنایا گیا ہے۔اب ظاہر ہے ایسے مقدمات تو روزانہ درجنوں کے حساب سے درج کئے جا سکتے ہیں،اس سے سیاسی کشیدگی میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بہتر تو یہی ہے کہ ملک میں سیاست کو چلنے دیا جائے اور کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوشش نہ کی جائے، ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں البتہ سیاسی بے چینی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔مریم نواز تحریک انصاف پر دہشت گرد جماعت کا لیبل لگانے کی بجائے اگر سیاسی میدان میں اُن کا مقابلہ کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔وگرنہ ایسے مطالبات سے تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھے گی کم نہیں ہو گی۔

مزید :

رائے -کالم -