شاعری نے دنیا کو جینا سیکھ یا،دانشور قوم کو بناتے ہیں سیاستدان نہیں:شاداب احسانی

  شاعری نے دنیا کو جینا سیکھ یا،دانشور قوم کو بناتے ہیں سیاستدان نہیں:شاداب ...

  

       کراچی (سٹاف رپورٹر) معروف ادیب مصنف پروفیسر شاداب احسانی نے کہا ہے کہ شاعری نے ہمیں جینا سکھایا ہے، کشور عدیل جعفری جدید دور کے شاعر ہیں، ان کی شاعری میں جدت نظر آتی ہیں، ان کا مستقبل تابناک ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے معروف شاعر، ڈرامہ نگار، نثر نگار اور ادبی تنظیم ”ادب انٹرنیشنل“ کے روح رواں کشور عدیل جعفری کے اولین شعری مجموعے ”سمندر کو بتانا پڑے گا“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کی صدارت جاوید منظر نے کی، کراچی ایڈیٹر کلب کے صدر مبشر میر، منظر نقوی،کتاب کے منصف کشورعدیل جعفری، ریحانہ روبی، انیس زیدی، سلمان صدیقی، ڈاکٹر فہیم کاظمی، اویس ادیب انصاری، پی اے سی سی کے صدر مخدوم ریاض نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں محفل موسیقی کا بھی اہتمام کیاگیا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاداب احسانی نے کہا کہ جنون کی چار اقسام ہوتی ہیں،الہام، القہ، عشق اور شاعری۔ کیونکہ شاعر کے پاس کیفیت سے جڑا ہوا معاملہ ہوتا ہے اور کیفیت بدلتی رہتی ہے، شاعری نے دنیا کو جینا سکھایا ہے جبکہ دانشور قوم کو بناتے ہیں، سیاستدان قوم کو نہیں بناتے۔یہ تو ثابت ہوگیا ہے فارس دراصل عربی کے زیراثر رہا ہے، فردوسی نے 60ہزار اشعار کہے، حافظ اور شیرازی آئے انہوں نے کہا کہ چاند پر جو داغ ہے اس کا سات ہزار سال سے سفر چلا آرہا ہے اس داغ کے بارے میں سات ہزار سال قبل بھی لوگوں کو علم تھا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان ایک بڑی تاریخ رکھتی ہے جبکہ ولی دکنی کے بعد بیانیہ شروع ہوگیا جبکہ 1930 میں اس میں جدت شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ شاعری ایسی چیزہے جس نے پوری دنیا کو جینا سکھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیرخسرو نے کہا کہ اردو زبان جب ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتی ہے تو یہ بدلتی رہتی ہے لیکن فارسی ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک ہی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1930 میں جدیدیت کا دور شروع ہوا اور اس کا مطلب تھا کہ چونکا دینے والی شاعری ہے ہمارے ترقی پسند ہندوستانی بیانیہ نہیں دے سکے اور یہ لوگ اپنی ترقی میں لگے رہے، انہوں نے کہا کہ کشور عدیل جعفری نمائندے ہیں جدیدیت کے، شاعری کے تمام اصولوں پر پورے اترتے ہیں، 150 ڈرامے بھی اب تک ان کے ہوچکے ہیں جو انہوں نے لکھے اور بہت پسند کیے گئے ہیں جبکہ ہمیں امید ہے کہ ان کی شاعری کی پہلی کتاب بھی لوگوں کے معیار پر پورا اترے گی۔ڈاکٹر جاوید منظر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ 150ڈرامے لکھنے والے عدیل جعفری نے شاعری کی یہ کتاب لکھ کر بہت بڑا احسان کیا ہے ان کی اس کتاب میں ادب، مذہب، رومانس سب کچھ نظر آتا ہے، انتہائی عمدہ شاعری ہے، شاعر ہر معاشرہ میں ہوتے ہیں لیکن عدیل جعفری نے اپنی شاعری کے ذریعے ثابت کردیا کہ وہ اچھے شاعر بھی ہیں اور منصف تو وہ پہلے ہی تھے۔کتاب کے روح رواں عدیل جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو میری پہچان ڈرامہ نگاری سے ہے، اور وقتاً فوقتاً کالم بھی لکھتا رہتا ہوں۔اس کتاب میں ان اشعار کو منتخب کیا ہے جو میں دل کی گہرائیوں سے لکھتا رہتا تھا، ان کو میں نے مجموعے کی شکل میں ترتیب دیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب لوگوں کی توقعات پر پورا اترے گی۔ انہوں نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اتنی تعداد میں میری حوصلہ افزائی کیلے یہاں جمع ہوئے ہیں۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کراچی ایڈیٹر کلب کے صدر مبشر میر نے کہا کہ یہ کتاب عدیل جعفری کی 34 برس کا نچوڑ ہے ہمیں امید ہے کہ وہ اس طرح کی مزید کتابیں ہمیں دیتے رہیں گے یہ کتاب عوام کے شعور کو اجاگر کرنے میں بہت اہمیت کی حامل ثابت ہوگی۔ ہمیں اندازہ ہے کہ شاعر پتہ نہیں کتنے اشعار کہتا ہے، لیکن جب وہ کتاب لکھتا ہے تو ان اشعار کا انتخاب کرتا ہے جو مہینوں اور سالوں کی محنت ہوتی ہے جو کہ کتاب نما کوذے میں بند کردیا ہے۔ اس طرح میں یہاں علامہ اقبال کی مثال دوں گا، وہ پتہ نہیں سینکڑوں اشعار کہتے تھے پھر اس میں سے انتخاب کرتے تھے جو مجموعہ افکار بنتا تھا۔ یہ جو کتاب عدیل جعفری کی شائع ہوئی ہے ”سمندر کو بتانا پڑے گا“ بہت عمدہ کلام ہے، اچھی شاعری کی وجہ سے اس کتاب کو میں نے کئی بار پڑھا  ہے  ۔ میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ عدیل جعفری نے جب کالم لکھنا شروع کیے تو اس کالم کا نام میں نے انہیں بتایا کہ اس کا نام ”کشور کشائی“ رکھیں۔ انہوں نے میری تجویز پسند کی اور اس کالم کا نام انہوں نے میرے کہنے سے کشور کشائی ہی رکھا ہے۔ کشور صاحب دراصل ڈرامے بھی لکھتے ہیں انہوں نے کئی نام دیے تھے۔ آج میں آپ کو بتاؤں کتاب میں شاعری بہت عمدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت گہری ہے، کتاب کا نام بھی بہت اچھا کہ ”سمندر کو بتانا پڑے گا“ جو شاعر سمندر کے آس پاس رہائش رکھتے ہیں وہ سمندر سے زیادہ اثر لیتے ہیں لیکن جو شاعر گاؤں میں زندگی گذارتے ہیں وہ لہلاتے کھیتوں کا ذکر پہاڑوں جھیلوں کا کثرت سے ذکر کرتے نظر آتے ہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ سمندر ی گہرائی اور شور کے علاوہ اس کی گہرائی اور اس کے پانی کا ذائقہ آنکھوں کے پانی کا ذائقہ ایک سا ہوتا ہے جب انسان کو درد محسوس ہوتا ہے تو وہ درد آنکھوں سے ٹپکتے آنسوسے ہوتا ہے، شاعر اور سمندر کا دکھ ایک سا دکھائی دیتا ہے، لگتا ہے کہ عدیل جعفری کی سمندر سے رغبت بہت گہری ہے، انہوں نے یہ کتاب ہمیں دے کر ہم پر احسان کیا ہے، ان کی کتاب میں روحانیت بھی ہے، صوفیانہ کلام بھی ہے،بردباری بھی ہے،غرض یہ کہ ہر چیز موجود ہے۔ کلب کے سیکریٹری جنرل منظر نقوی نے کہا کہ کتاب میں کمال کی شاعر ی ہے، اس میں مذہب بھی ہے، نعت بھی ہے تو حمد بھی موجود ہے۔ ان کی شاعری میں شاعر کی شخصیت جھلکتی ہے، کونسا ایسا شعبہ ہے جو اس کتاب میں نہیں ہے، ان کے اشعار میں ہر چیز موجود ہے، نہایت خوبصورت انداز میں اشعار کہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ڈرامے بھی لکھتے ہیں، کالم نویس بھی ہیں، انکا انداز ہی الگ ہے، اسلوب بہت اچھا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مسلمان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ عدیل جعفری کی پہلی کتاب ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کی مزید کتابیں آئیں گی اور اس ہی طرح تقاریب منعقد ہونگی۔ ریحانہ روبی نے اپنے خطاب میں کہا کہ عدیل جعفری کی شاعری کی کتاب سے طالب علموں کے علم میں اضافہ ہوگا، انہوں نے اس کتاب میں بہت کچھ دیا ہے۔ عدیل جعفری جس طریقے سے لکھتے ہیں اور جس نظر سے دنیا کو دیکھتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ دنیا کو کس کس کی نظر سے دیکھتے ہیں، اس کتاب کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ عدیل سمندر کی گہرائیوں میں جاکر اشعار لائے ہیں، ان کا ادب میں معتبر نام ہے، ان کے طرح کے ذہین افراد دنیا میں کم ہیں۔ انیس زیدی نے کہا کہ عدیل جعفری کی شاعری میں تمام رنگ نمایاں ہیں۔ شاعر دراصل معاشرہ کا ضمیر اور آواز ہوتا ہے، عدیل نے اس کتاب کے ذریعے لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ اس کتاب کا عنوان کثیر جہتی ہے اس میں سمندر کی گہرائی ہے، وہ کتاب کے ذریعے اپنی شاعری کے ذریعے سمندر سے شکوہ کررہے ہیں کہ مجھے بتانا ہوگا۔ ڈاکٹر فہیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اردو ادب کی سحر انگیزی سے سمندر کو،ہمیں بتانا ہوگا ان کی اس کتاب سے نثریت نظر آتی ہے، شاعری اس قدر خوبصورت ہے۔ دراصل عدیل جعفری کے ڈرامے بھی انتہائی اچھے ہوتے ہیں انہوں نے اس کتاب سے بہت کچھ لوگوں کو دینے کی کوشش کی، یہ ہی ان کی شاعری کی خوبی ہے، ہر شعر نزاکت کے ساتھ لکھا ہے۔ اقبال احمد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو چوٹ عدیل جعفری کے دل پر پڑی ہے سارے رنگ اس کتاب میں ہیں۔ اپنے احساسات انہوں نے اس کتاب کے ذریعے ظاہر کیے ہیں ان کی شاعری انتہائی عمدہ اور خوبصورت ہے۔ اویس ادیب انصاری نے کہا کہ میں شاعر عدیل جعفری کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور میں یہ جانتا ہوں کہ انہوں نے کبھی سفارش کو پسند نہیں کیا لیکن میں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی پی آر بڑھائیں، یہ بہت ضروری ہے۔ پی اے سی سی کے صدر مخدوم ریاض نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شاعر عدیل جعفری نے اس کتاب کے ذریعے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ یہ ہمارے ادارے کی خوش نصیبی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کی رونمائی کیلئے پی اے سی سی کا انتخاب کیا۔ وہ ایک عظیم شاعر ہے ہمیں امید ہے کہ وہ آئندہ اپنی آنے والی کتابوں کی رونمائی کیلئے ہمیں عزت افزائی کا موقع دیں گے۔ انہوں نے پی اے سی سی کی جانب سے عدیل جعفری کو شیلڈ پیش کی۔ آخر میں خصوصی دعوت پر لاہور سے آئے ہوئے گلوکار وحید خیال نے عدیل جعفری کی شاعری کو غزل کی شکل میں سنا کر حاضرین سے داد وصول کی۔ 

مزید :

صفحہ اول -