میرے پاس مزید بوٹی نہیں تھی اور مریض مسلسل آرہے تھے،یہ سرطان کی بے شمار قسموں میں مستعمل ہے 

میرے پاس مزید بوٹی نہیں تھی اور مریض مسلسل آرہے تھے،یہ سرطان کی بے شمار قسموں ...
میرے پاس مزید بوٹی نہیں تھی اور مریض مسلسل آرہے تھے،یہ سرطان کی بے شمار قسموں میں مستعمل ہے 

  

 مصنف: پروفیسر شمع سکندر خان 

قسط:35

میرے پاس مزید بوٹی نہیں تھی اور مریض مسلسل آرہے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ کہیں سے مزید بوٹی بھی مل جائے تو اسے استعمال کروں۔ جب حاجی صاحب اس کے فوائد بیان کر رہے تھے تو لاہور کے ایک حکیم صاحب بھی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا یہ کس بوٹی کا ذکر ہو رہا ہے؟ میں نے عرض کیا سملو کا، پوچھا کہا ہوتی ہے؟ میں نے کہا راولپنڈی سے پرے پرے۔۔۔ایبٹ آباد، شمالی علاقہ جات، سوات اور شاہراہِ ریشم پرَ، کہنے لگے میرے مریدوں کی کثیر تعداداس علاقے میں رہتی ہے۔ کہیں تو آپ کے لئے ایک بوری منگوادوں۔ میں نے کہاں بوری کی تو ضرورت نہیں لیکن ایک ڈیڑھ کلو منگوا دیں تو نوازش ہو گی۔ پوچھنے لگے کس کام آتی ہے؟ میں نے کہا سرطان کی بے شمار قسموں میں مستعمل ہے مثلاً ہڈیوں کا، جگر کا، خون کا اور چھاتی کا سرطان وغیرہ لیکن ایک شرط ہے یہ دوا بلامعاوضہ دینی ہے، اس کا ایک پیسہ بھی لینا آپ پر حرام ہے۔ انہوں نے وعدہ کر لیا۔ کئی ماہ گزر گئے، نہ وہ آئے نہ دوا آئی۔ میں نے بھی تقاضا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ 

ایک دن ایم اے او کالج کے ایک پروفیسر جو ہومیو پیتھ بھی ہیں میرے پاس بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے میرے گھر کے قریب ایک حکیم صاحب سرطان کا بہت کامیاب کرتے ہیں15دن کا علاج ہے۔ صبح شام ایک ایک کیپسول کھانا ہوتا ہے۔ فی کیپسول 500 روپے لیتے ہیں۔ میں نے ان کی رہائش کا پوچھا، مطب کا حدوداربعہ معلوم کیا اور ان کا قد کاٹھ پوچھا کیونکہ انہیں حکیم صاحب کا نام معلوم نہیں تھا۔ سب کچھ جاننے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو وہی حکیم صاحب ہیں جنہیں میں نے نسخہ بتایا تھا۔ بہت دکھ ہوا کہ بلامعاوضہ دینے کا وعدہ کر کے وہ 500 روپے فی کیپسول لے رہے ہیں۔ 

پروفیسر صاحب اُٹھ کر گئے تو میں نے حکیم صاحب کو فون کر کے انہیں بہت شرمسار کیا۔ مگر حکیم صاحب شرمندہ ہونے کے بجائے کہنے لگے میں آپ کے کہے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔500 روپے فی کیپسول بھی مفت ہی ہے۔ ایلوپیتھک ادویہ پر لوگ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں اس لحاظ سے 15ہزار روپے کی حیثیت ہی کیا ہے۔ میں نے ان سے مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن مجھے ان کی ذہنیت پر بے حد صدمہ ہوا۔ 

اتفاقاً انہیں دنوں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع تھا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد بے شمار لوگ میرے مطب آتے ہیں۔ ان میں2 بزرگ ایسے ہیں جو سالہا سال سے شاہراہِ ریشم سے میرے پاس آرہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ آئے اور جاتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے اس علاقے میں کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔ 

میں نے ان سے اس بوٹی کا ذکر کیا لیکن انہیں سمجھ نہ آئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ ایک قد آدم کانٹے دار پودا ہے۔ اس میں پھل لگتا ہے۔ زرد رنگ کی جڑ ہوتی ہے۔ بعض جگہ پر سیاہ رنگ کی جڑ بھی ہوتی ہے۔ اب وہ کہنے لگے ہم سمجھ گئے۔ ہمارے علاقے میں اسے سملو کہتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ جاتے ہی اس بوٹی کی جڑ کا چھلکا مجھے بھیج دیں گے اور انہوں نے وعدہ نبھایا بھی ایک کلو کے قریب سملو یا سنبلو بذریعہ ڈاک مجھے مل گئی۔ اسے میں نے بے شمار امراض میں آزمایا مثلاً اسے بخار پر جو کسی دوا سے نہیں جاتا تھا ایک ایک ماشہ صبح دوپہر شام دودھ کے ساتھ لینے سے وہ اتر گیا۔ اعصابی درد سملو اور کچلہ مدبر ملا کر صبح شام ایک ایک ماشہ استعمال کرانے سے دور ہو گئے۔ سملو کی لکڑی کا چھوٹا سا ٹکڑا رات سوتے وقت منہ میں رکھنے سے گلے کی گلٹیاں (ٹانسل) دور ہو گئیں۔ 

 ( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -