پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی وزیراعلیٰ کا پروٹوکول لے کر کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور حلف اٹھانے کے بعد کئی ہنگامی اور انقلابی اعلانات کر ڈالے، ان اقدامات میں ایک لاہور شہر کی صفائی کا حکم بھی ہے، کیونکہ شریف خاندان والے لاہور ہی کو پنجاب سمجھتے ہیں۔ مریم صاحبہ نے تمام ڈی سی صاحبان کو حکم دیا ہے کہ ایک ماہ کے بعد لاہور کے کسی بھی علاقے میں گندگی نظر نہیں آنی چاہیے ورنہ پھر آپ نظر نہیں آؤ گے، بلاشبہ ایک انتہائی اہمیت کے حامل مسئلے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، کیونکہ کسی بھی قوم کی سوچ کا پتا لگانا ہو تو اس کی صفائی اور سڑکوں پر ٹریفک کو دیکھا جاتا ہے اگر وزیراعلیٰ صاحبہ صرف لاہور ہی کی صفائی کا درست انتظام کر دیں تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہوگا اور اس کو مثال بنا کر سارے ملک کی صفائی بہتر ہو سکتی ہے، لیکن ہمیں ڈر ہے کہ یہ کہیں وقتی یا نمائشی احکامات ثابت نہ ہوں، پرانے زمانے کی ایک حکایت ہے کہ ”ایک خاتون کی شادی ہوئی جب وہ سسرال پہنچی تو دیکھا سسرالی بہت گندے ہیں اور گھر میں ہر طرف بدبو آ رہی ہے۔ بہو رانی نے دو چار دن صفائی کی کوشش بھی کی مگر جس گھر میں سب گندے ہوں وہاں ایک فرد کیسے صفائی رکھ سکتا ہے، لہٰذا وہ گندگی جاری رہی اور جب کچھ عرصہ بعد بہو رانی بھی اس بدبو کے ساتھ مل گئی اور اب اسے بدبو آنا ختم ہو گئی تو پھر وہ لوگوں کو بتاتی پھرتی تھی کہ اس گھر کے اندر میں آئی تو بو مکائی“۔
مریم صاحبہ تو کافی عرصہ سے لاہور میں رہ رہی تھیں۔ اس دوران ان کے خاندان کی پنجاب اور مرکز میں حکومتیں بھی رہیں اور گندگی بھی رہی، لیکن اب وزیراعلیٰ بنتے ہی مریم صاحبہ کو گندگی نظر آنا شروع ہو گئی ہے، ہمیں یہ تو یقین ہو گیا ہے کہ ہماری وزیراعلیٰ صاحبہ بہت ہی صفائی پسند ہیں اور ان کے احکامات کی روشنی میں لاہور میں جا بجا صفائی مہم جاری ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے پہلے سے یہ گند ڈال رکھا تھا ان کو کہیں دوسرے علاقے میں منتقل کر دیا جائے گا یا پھر وہ اب صفائی پسند بن جائیں گے؟ کیونکہ صفائی سمیت کوئی بھی کام زور زبردستی سے ہمیشہ کے لئے کروانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں کبھی کبھار حکمران اور افسر ہفتہ صفائی بھی مناتے رہے ہیں اور ہم نے اکثر اسی ہفتے کے دوران ہفتہ صفائی منوانے والے افسروں کے دفاتر کے گرد گندگی بھی دیکھی ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسی کھانے کی جگہ نہیں ملتی جس کے کھانا پکانے کی جگہ پر صفائی کا خیال رکھا جاتا ہو، ہم نے کسی چھوٹی بڑی شادی کی تقریب میں صفائی ستھرائی سے کھانا بنتے دیکھا نہ کھلاتے دیکھا ہے۔ ہمارے ملک میں کسی بھی عوامی مقام پر بنے بیت الخلاء کی حالت دیکھ لیں یا کسی بسوں کے اڈے کے آگے پیچھے دیکھ لیں ہر جگہ پتا چل جائے گا کہ ہم پاکستانی مسلمان ہیں۔ یہ خاکسار عمران خان کے دور میں ایک بار پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کی گیلری میں جا بیٹھا تھا، بعد میں جناب عامر ڈوگر کے ہمراہ علی امین گنڈاپور صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات کی جب ہم پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں کچھ کھانے گئے اور اپنے ہاتھ دھونے کی غرض سے ایک بیت الخلاء جانا پڑا تو وہاں بدبو آ رہی تھی۔ جب دیکھا تو ایک ٹوائیلٹ میں حاجت کے بعد فلش کرنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی۔ جس ملک کے راہنماؤں کی یہ حالت ہو وہاں عام آدمی سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ یہاں ایک مشہور لطیفے کا ذکر کر دوں، "کہا جاتا ہے کہ برصغیر کی آزادی کے بعد سوویت یونین کے صدر بھارت کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور بھارتی وزیراعظم نہرو صاحب کے ساتھ گاڑی میں سفر کرتے ان کی نظر کچھ لوگوں پر پڑی جو کسی دیوار کے ساتھ کھڑے پیشاب کر رہے تھے۔ تو سوویت یونین کے صدر نے کہا اگر یہ لوگ میرے ملک ہوتے تو میں انہیں گولی مروا دیتا۔ کچھ عرصہ بعد بھارت کے وزیراعظم نہرو صاحب سویت یونین کے دورے پر چلے گئے اور جب وہ سویت صدر کے ساتھ گاڑی میں سوار کہیں جانے لگے تو ان کی نظر ایک ایسے آدمی پر پڑ گئی جو وہی کام کر رہا تھا تو نہرو صاحب کو موقع مل گیا اور کہا کہ دیکھو جناب صدر وہ کیا ہو رہا ہے۔ سوویت صدر نے پولیس کو حکم دیا کہ اس بندے کو پکڑ کر ہمارے سامنے لایا جائے جب وہ سامنے آیا تو دیکھا وہ سوویت یونین میں متعین بھارتی سفارتکار نکلا"
محترمہ سے گزارش یہ کرنی ہے کہ اگر آپ واقعی اپنے صدر مقام کی صفائی کے لیے سنجیدہ ہیں تو پھر لوگوں کی تربیت کرنا ہوگی، تمام تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ و طالبات کے لیئے ایک پیریڈ صفائی کا مقرر کیا جائے، عوام کو صفائی کے طریقے سکھائے جائیں، سڑکوں کے کنارے اور تمام عوامی مقامات پر کوڑے دان رکھے جائیں جنہیں بھر وقت اٹھائے جانے کا انتظام ہو، عوامی مقامات پر ملازمین رکھے جائیں جو لوگوں کی راہنمائی کریں، پان اور تمباکو کے لیے مخصوص جگہیں مقرر کی جائیں۔ جمعہ کے اجتماعات میں صفائی کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ تمام ریاستی دفاتر کے لوگوں کو صفائی کی تربیت دی جائے اور کسی بھی افسر کے دفتر میں گندگی کی صورت میں اس افسر کی باز پرس کی جائے۔ تمام عوامی مقامات پر بیت الخلاء بنائے جائیں۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔جب تک کوڑے کو سنبھالنے کا مناسب بندوبست نہیں ہوگا اس وقت تک صفائی ممکن ہی نہیں ہو گی۔اس کے لیے چین یا کسی مغربی ملک سے بات کر کے کوڑے کی ریسائکلنگ کا انتظام کرنا ہوگا۔