لاہور میں جیسے ہی سخت سردی کی لہر میں کمی واقع ہوئی ہے یہاں کی ادبی فضا رنگین نظر آنے لگی ہے۔ کچھ ہی دن پہلے بہت سے میلے سجے ان میلوں کو دیکھتے ہوئے لاہور کو میلو ں کا شہر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا لوگوں کی بہت بڑی تعداد ان میں شرکت کرتی ہے اور خاص طور پر ہماری نوجوان نسل بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ یہاں لاہوریے نہ صرف ادب اور کلچر سے روشناس ہوتے ہیں بلکہ یہاں کے کھابوں سے بھی بے حد محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ سب محفلیں میلے ڈھیلے درحقیقت ہمارے پنجاب کی روایات ہیں۔ موسم کے بدلنے پر ہمارے لاہوریے گھروں میں بھی موسیقی کی محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں اور مہمانوں کی تواضع بھی دل و جان سے کرنے میں مشہور ہیں۔ یعنی ہمارے لاہوریے بے حد مہمان نواز ہیں۔ ہمارے ہر دلعزیز شاعر ادیب شعیب بن عزیز کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ادبی قبیلے شعیب بن عزیز کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ اُن کے ہاں بھی دعوت شیراز ہوتی رہتی ہیں خوش قسمتی سے اس بار قرعہ ہمارے نام نکلا اور ہمیں شعیب بن عزیز نے صبح ناشتے پر بڑی محبت سے مدعو کیا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس دعوت میں بھابھی کے ہاتھ کے پکے پائے وہاں خوب سیر ہوکر کھائے اور پھر حلوے اور مزے کی چائے اور پراٹھوں نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور خاص بات تو یہ ہے کہ بڑے عرصے بعد لاہوری لسی پی اور برسوں کی پیاس بجھائی۔ شعیب صاحب کے چٹکلے اور خوبصورت گفتگو سے خوب فیضیاب ہوکر اگلی ملاقات کا پروگرام بنایا اور نئے خوبصورت گھر کی مبارک دے کر اور دعائیں لے کر اجازت چاہی۔
شام 4بجے ادبی بیٹھک میں آفتاب خان کی شاعری کی کتاب ”اُجاغ میں پڑی ہے راکھ“ کی رونمائی کا دعوت نامہ ڈاکٹر نثار ترابی صاحب نے بھیجا تھا۔ ڈاکٹر نثارترابی پروفیسر، شاعر، ادیب، نقاد ہیں۔ وہ جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ہنر میں خطیب ہیں۔ پچھلے سال 2023 میں صوفی تبسم کو نشانِ امتیاز کے موقع پر پروفیسر ڈاکٹر شیر علی نے 21مارچ کو صوفی تبسم کانفرنس منعقد کی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر شیرعلی الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اردو ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اور ڈین ہیں۔ وہاں مہمانِ خصوصی پروفیسر ڈاکٹر نثار ترابی صاحب سے بالمشافہ ملنے اور سننے کا موقع ملا بہت جوشیلے سچے اور کھرے انسان ہیں۔ انسان دوستی اُن کی گھٹی میں ہے کیونکہ وہ شہر پشاور کے باسی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر بھی انتہائی شفیق ادبی شخصیت ہیں۔ اُن سے بھی پہلی ملاقات وہیں پر ہوئی۔ ان سب کی شفقت و محبت اُس کانفرنس میں سمیٹ کر میں واپس لاہور چلی آئی تھی۔ اب یہ سب حضرات جب لاہور تشریف لاتے ہیں تو ہمارے لیے وہ دن عید کا دن ہوتا ہے۔ اس زمانے میں ایسی قابل اور شفیق شخصیات کم کم ہی نظر آئیں گی۔ شام کو ادبی بیٹھک الحمرا ہال میں پہنچے صاحب کتاب آفتاب خان کے ساتھ بہت سی ادبی شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ آفتاب خان کے جو اس دور کے مقبول ترین شاعر ہیں اُن کی اس کتاب کی رونمائی لاہور آرٹس کونسل اور بزم انجم رومانی کے زیراہتمام منعقد کی گئی تھی۔ جس کی صدارت جناب باقی احمد پوری اور ڈاکٹر نثار ترابی کررہے تھے۔ مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر غافر شہزاد، ممتاز راشد لاہور، ڈاکٹر ایوب ندیم، ریاض ندیم نیازی، آغا شاہد خان، ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ، ڈاکٹر عابدبتول، نعمان منظور شامل تھے۔ سیّدتاثیرنقوی، احمد سبحانی آکاش، نون عین صابر، نویدصادق، سجاد بلوچ، ارشد نعیم، مسز الطاف، ذیشان باری نے اپے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر ایم ابرار نے کی جو کئی برسوں سے انجم رومانی کے روحِ رواں ہیں اور کامیابی سے اسے چلا رہے ہیں۔ منتظمین میں اقبال راہی، نگہت اکرم اور ساجد حسین ساجد کے نام شامل تھے۔ صاحب کتاب آفتاب خان پشاور میں پیدا ہوئے مگر بچپن ہی میں سکونت مسلم آباد مغلپورہ لاہور میں اختیار کی۔ اُنہوں نے شاعری کی ابتدا 1995 میں کی۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ 2016 میں شعروادب کے ناقدین کے ساتھ ساتھ قارئین میں بھی پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ ”اُجاغ میں پڑی ہے راکھ“ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ یہ کم و بیش 120غزلیات پر مشتمل ہے۔ ان میں ایک غزل 99 اشعار کی بھی ہے۔ ان کی کتاب دھنک مطبوعات لاہور نے شائع کی ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو میر، غالب، داغ، اقبال، فیض اور اُستادِ محترم علامہ بشیر رزمی کے نام انتساب کیا ہے۔ کتاب کا فلیپ نعمان منظور اور صفدر واثق نے لکھا ہے جبکہ کتاب پر مضامین جان کاشمیری، اکرم کنجاہی، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر ایوب ندیم، سعود عثمانی نے لکھے ہیں۔ نعمان منظور لکھتے ہیں جناب آفتاب خان ناقدانہ صلاحیتوں سے مالامال ہیں ان کا تنقیدی شعور اور مشاہدہ ہی درحقیقت ان کی شاعری کی بنیاد بھی ہے اور موضوع بھی یہی منفرد ذائقہ انہیں شعراء میں ممتاز کرتا ہے۔ یہ صلاحیت لوگوں میں کم کم ہی ہوتی ہے۔ مشت نمونہ از خوارے کے طور پر یہ اشعار دیکھیے:
بٹھا کے ساتھ کوئی گھڑ سوار لے جائے
میں اک پیادہ ہوں شطرنج میں پڑا ہوں ابھی
کسی پہ وجد کسی پر سرور طاری ہے
فنا وہی ہوئے جن پر غرور طاری ہے
معروف شاعر اور ادیب جان کاشمیری دیباچہ میں لکھتے ہیں آفتاب خان نے ”اُجاغ میں پڑی ہے راکھ“ کتاب کا نام رکھ دیا۔ اُجاغ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آتش دان کے ہیں گویا اب راکھ کو محفوظ کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا بلکہ خودبخود حل ہوگیا گویا جو روشنی کا عمل ”اُجاغ“ میں ہوگا اُس کی راکھ بھی رہے گی یہاں راکھ فکری و معنوی ریاضت کا بلیغ زائچہ مرتب کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔