بجٹ میں عام آدمی کے لئے بھی کچھ سوچیں
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے طاقتور طبقات کے 300ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹیکس ایڈوائزری کونسل کے اجلاس میں یہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ کی تیاری کے سلسلے میں سب سے مشاورت کی جائے گی۔ تاجروں اور صنعت کاروں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اقتصادی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ گزشتہ دس ماہ میں اقتصادی اصلاحات کے نتیجے میں معیشت درست سمت میں گامزن ہو گئی ہے۔ آئندہ تین سال کے دوران تمام امتیازی ایس آر اوز ختم کر دیئے جائیں گے۔ ان میں سے300ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ اشرافیہ اور دوسرے طاقتور طبقات کے لئے ہیں۔ حکومت مرحلہ وار ان ٹیکس رعایتوں سے دستبرداری کا اعلان کرے گی۔ اجلاس میں نظر ثانی شدہ2013ءاور2014ءکے محاصل اہداف پر غور کیا گیا۔
وزیر خزانہ کی طرف سے معیشت کے درست سمت میں گامزن ہو جانے کی خوشخبری ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ سٹیٹ بنک کی طرف سے رواں مالی سال کے لئے جاری کی گئی آخری فنانشل رپورٹ میں بھی صنعتی پیداوار میں اضافے اور مالیاتی خسارہ میں کمی اور قدرے کم قرضے لینے کی بات کی گئی ہے اور بنیادی اقتصادی انڈی کیٹرز میں بہتری ہونے اور معیشت میں اعتماد بحال ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک ہم بجٹ خسارہ اور بیرونی ادائیگیوں کے عدم توازن سے نہیں نکل سکے۔ غیر ملکی قرضوں میں کمی کرنے کے بجائے قرض لینے کی رفتار میں قدرے کمی کی بات کی جا رہی ہے ۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے معاشی بہتری کی رفتار مستحکم کرنے میں مددملے گی۔ زرمبا دلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ کے لئے پیداواریت اور مہنگائی میں بہتری لانا لازمی ہے۔ سٹیٹ بنک کے مطابق مہنگائی حکومتی اندازوں سے زیادہ ہوئی ہے۔
تمام سٹیک ہولڈروں، تاجروں ، صنعت کاروں اور زمینداروں سے مشاورت کے ذریعے بجٹ تیار کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس میں حکومت، ملازمین کے نمائندوں اور برآمدکندگان کو بھی شامل کر سکتی ہے اور بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات کی آراءکو بھی پیش نظر رکھ سکتی ہے۔ اس سے آگے سٹیک ہولڈرز کی بات عموما نہیں جاتی ۔ عام آدمی کے اپنے جسم اور روح کا رشتہ قائم کرنے کے لئے مسائل، ناانصافیوں اور بدامنی سے اجیرن ہو جانے والی عوامی زندگی کی چبھن اور اصل اذیت کو کوئی محسوس نہیں کرتا۔ حکومت کی طرف سے کچھ دن قبل یہ بات سامنے آئی کہ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، یہ کسی نے نہیں کہا کہ روزمرہ اشیاءکی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کا باعث اور ملک میں بہت بڑی کرپشن کو جنم دینے والے سیلز ٹیکس کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس ٹیکس کی وجہ سے مہنگائی میں کتنے فیصد اضافہ ہوا، اس ٹیکس کا کتنے فیصد جعلی ربیٹس کی صورت میں دھوکے بازوں اور محکمہ ٹیکس کے بدعنوان کارندوں کی جیب میں گیا۔ اس ٹیکس سے حقیقی طور پر کتنے فیصد قومی خزانے میں پہنچا۔ گزشتہ دِنوں محکمہ ٹیکس کے بعض کارندوں کی طرف سے ربیٹ کے نام پر اربوں روپے کھا جانے کے سیکنڈلز سامنے آئے تھے ، جس کے بعد حکومت کی طرف سے غریب عوام کو یہ کسی نے بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی، جنرل سیلز ٹیکس کی لوٹ مار میں کس کس طرح کون کون سے لوگ شامل ہیں اور لٹیروں کی گردنوں پر آخر کون اور کب ہاتھ ڈالے گا؟
سٹیٹ بنک کی طرف سے پیداواریت کو فروغ دینے اور مہنگائی پر قابو پانے کی بات کی گئی ہے۔ اگر ملک کے زرعی، معدنی اور صنعتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے پر حقیقی توجہ نہیں دی جائے گی ،تو اس غفلت کو کسی بھی طرح قوم و ملک سے وفاداری نہیں سمجھا جائے گا۔ زراعت کے سلسلے میں یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ حکومتوں کی طرف سے ملاوٹ سے پاک جراثیم کش ادویہ، سستی کھاد، ترقی دادہ بیج کی فراہمی اور فصلوں کی سٹوریج اور گندم اور کپاس وغیرہ کی بروقت مناسب داموں پر خرید کے انتظامات ہوجائیں تو اگلے ہی سیزن سے ہماری پیداوار ڈیڑھ گنا ہو سکتی ہے۔ پیداوار بڑھانے والے نئے بیجوں کی تحقیق پر مسلسل نظر رکھنے اور اس راہ میں ہونے والی سازشوں کو نا کا م بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح معدنی وسائل کے لحاظ سے دنیا کے خوش قسمت ملکوں میں سے ہونے کے باوجود ہم اپنے ملک میں موجود گیس و تیل کے ذخائر دریافت کرنے میں ناکام ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کے سستے ترین ذرائع (پن بجلی ) سے استفادہ کرنے کے سلسلے میں ہم گزشتہ66سال سے بین الاقوامی اداروں کی سازشوں کا شکار ہیں اپنے قومی مقاصد کے بجائے عالمی سازشیں تیار کرنے والوں کا ایجنڈا پورا کیا جا رہا ہے۔ ملک میں کوئلے، تانبے، سونے ، اور قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں، لیکن ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی طرف کوئی بھی نہیں آتا۔
معدنی میدان میں ایک بہت بڑا مافیا اربوں روپے کی کان کنی کرنے میں مصروف ہے، اس کی طرف سے اربوں کے حصے اوپر والوں کو پہنچتے ہیں، جس کے بعد قومی خزانے میں ایک پائی بھیجے بغیر اس مافیا کا بہت وسیع کاروبار چل رہا ہے۔ ہر طرح کا پوٹینشل اور وسائل اور طلب ہونے کے باوجود 66سال تک ملکی ضرورت کے مطابق انرجی پیدا نہ کر سکنا بھی دنیا میں دورِ جدید کا ایک بہت بڑا عجوبہ ہے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے اور عوام کو ٹالنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ موجودہ ذرائع سے فوری اصلاحات کے ذریعے ملکی ضرورتیں پوری کرنے اور اربوں کھربوں کے گھپلے کرنے والوں کا ہاتھ روکنے والا کوئی ہے نہ بجلی کی سپلائی اور پیداوار کا صحیح آڈٹ اور حساب کرنے کی کسی کو فکر ہے۔ 66 سال تک سستی بجلی کی پیداوار میں ناکامی کے باوجود مختلف قوانین اور اجارہ دار محکموں کی کرپشن اور دھاندلیاں پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انرجی کرائسس کی بناءپر صنعتی پیداوار میں اضافہ اور نئی صنعتوں کے قیام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس طرح یہ سارے معاملے قوم کی پیداواریت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا دیئے گئے ہیں۔
طاقتور طبقات تو ٹیکس ادا کر کے قومی خزانہ بھرنے سے کنی کتراتے ہی ہیں، خود ٹیکس وصول کرنے اور قومی آمدنی میں اضافے کے ذمہ دار محکمے ٹیکس چوری کے سب سے بڑھ کر ذمہ دار ہیں۔ میگا کرپشن میں ملوث حاکموں نے خود بھی قومی وسائل کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی ہے۔ اس طرح بنیاد ی وجوہ پر توجہ دینے کے بجائے مارکیٹ میں موجود فورسز ہی کو اِدھر سے اُدھر کر کے اسی پرانی ڈگر پرچلتے ہوئے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب تک ہمارے بڑے لوگوں میں ملکی سرمایہ باہر لے جانے کا مزاج موجود رہے گا اس وقت تک نہ تو ملک میں کوئی حقیقی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے نہ صنعت اور معدنی وسائل میں قومی نقطہ ¿ نظر سے کوئی وسعت پیدا ہو گی اور نہ عوام کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملکی آبادی میں تیزی سے ہوتے ہوئے اضافے کے ساتھ ہماری مقامی مارکیٹ میں وسعت پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانی اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس سے ملکی توازن ادائیگی درست ہو جانا چاہئے، لیکن زرمبادلہ کی یہ بھاری رقوم حکومتی مشینری کے اسراف اور بڑھتے ہوئے مطالبات زر کی نذر ہو جاتی ہیں۔ قومی پیداوار میں حقیقی اضافہ کرنے اور معیشت کو انقلابی انداز میں وسعت دینے کے بجائے ، موجود معاشی ڈھانچے کے سلسلے میں بھی حکومتیں منصوبہ بندی کے اسقاط کا شکار ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف قومی تعمیر و ترقی کے بڑے بڑے کام کرنے والے پڑے ہیں، جن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہم ترقی و خوشحالی کے تمام اہداف حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف کروڑوں بے روزگا ر لوگ ملک میں موجود ہیں،جو کسی بھی باعزت روزگار کی تلاش میں ہیں، لیکن ان کے لئے کوئی کام نہیں ہے۔
ہر بجٹ کے موقع پر عام آدمی مزید مہنگائی اور مشکلات ، بالواسطہ اور بلاواسطہ نئے ٹیکسوں سے خوفزدہ سر پکڑے بیٹھا ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آخر بجٹ کے سٹیک ہولڈرز میں عام آدمی کو بھی شامل کیا جاتا ہے یا نہیں۔ کیا بجٹ کے سٹیک ہولڈرز وہی طبقات ہیں، جنہوں نے مختلف طریقوں سے عوام کے گلے پر چھری پھیرنی ہے۔ کیا مہنگائی کم کرنے انرجی اصلاحات کے ذریعے عام آدمی کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، قومی معدنی دولت کا رخ قومی خزانے کی طرف کرکے اور قوم کالوٹا ہوا بیرون ملک پڑا 500ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ واپس وطن لا کر قوم کی تقدیر سنوارنے اور اربوں ڈالرز کے قرضوں کا قوم سے بوجھ اتارنے کے لئے بھی کچھ کیا جائے گا؟
کیا بجٹ سے متعلق عام آدمی کی توقعات اور خواہشات کے متعلق کسی طرح کے حقیقی سروے اور پول کا انتظام حکومت کے پروگرام میں شامل ہے، جس سے کہ بجٹ کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ز کی بات بھی حکومت تک پہنچ سکے؟ اشرافیہ کو حاصل300 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا بظاہر مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پیش نظر غریبوں پر زیادہ بوجھ ڈالنے کے بجائے بجٹ اخراجات کا زیادہ بوجھ طاقتور اور امیر طبقوں کی طرف منتقل کیا جائے ۔ یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن اگر عام آدمی کی خواہشات دیکھی جائیںتو عام آدمی لائٹ بلب جلانے اور پنکھے کی ہوا کے لئے بجلی چاہتا ہے۔ اپنے روزگار کے لئے قومی زراعت، کان کنی اور صنعت میں حقیقی وسعت کا منتظر ہے اور سب سے بڑھ کر موجودہ مہنگائی سے نجات کی تمنا رکھتا ہے۔ حکمران طبقوں میں خلوص نیت کے ساتھ اسراف سے اجتناب اور انہیں سادگی اور بچت کی راہ پر چلتے دیکھنا چاہتا ہے۔ معیشت کے میدان میں ان توقعات کے علاوہ عام آدمی اپنی عزت نفس اور جان و مال کا تحفظ چاہتا ہے، سستا اور فوری انصاف چاہتا ہے اور بس!