حرام یا حلال ؟صحت مند گوشت کی فراہمی یقینی بنانے کا ممکنہ واحد حل
نمل نامہ (محمد زبیراعوان)ہمارے ایک دوست کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور بالآخر دبئی کا ویزالگ گیا، سب کچھ بک چکاتھا، کچھ ویزے کے نام پر کمپنیاں کھاگئیں تو باقی رقم چھ مہینے گھر بیٹھ کر کھاچکاتھا، باقی تن کے کپڑے بچے تھے لیکن دل کا برانہیں تھا، دوستوں کو کھانے پر دعوت دی ، تکے بھی بنوائے اور ساتھ میں کڑاہی رائتہ بھی ۔ ۔ ۔کھانا ابھی شروع ہی ہواتھاکہ ایک دوست کچھ اس طرح گویاہی کہ کھانے کا مزا ہی کرکراہوگیا۔۔۔یہ گوشت اس نے خود نہیں بنوایا بلکہ فلاں مقام پر قصائی سے لے کرآیاہے ، قصائی کہاں سے لے کرآیا،کچھ پتہ نہیں ، یہاں پولیس چوکی کی پچھلی طرف انسانوں کیساتھ ساتھ گدھوں کی کھالیں بھی اترجاتی ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ، اپنی ذمہ داری سے کھایئے ۔
بات ہی ایسی تھی کہ چاہتے ہوئے بھی کھانانہ کھاسکے ، میزبان نے بھی اِسے معاشرے کی بے حسی اور ناجائزمنافع خوری قراردیا، باربار کھانے کو اصرار کرتارہالیکن کون کھائے ؟ جب بکرے کی ٹانگ پکڑیں اور ذہن میں خیال گدھے کی دم کا ہو۔۔۔
تقریباً پنجاب بھر سے گدھوں کے گوشت یا کھالیں اتارے جانے کی خبریں سامنے آچکی ہیں ، کئی مقامات پر محکمہ لائیوسٹاک نے چھاپے مار کر مردار گوشت پکڑا، اب تو ایسے محسوس ہوتاہے کہ آپ قیمہ خرید رہے ہوں یا کسی ریستوران سے کڑائی گوشت یا باربی کیو سے لطف اندوز ہورہے ہوں ، ہر چیز میں حرام گوشت کے استعمال کا خدشہ رہتاہے ، اگر ممکن ہو تو آپ چند ماہ کے لیے گوشت کی خریداری سے بھی توبہ کرلیں،اس سے شاید صحت اور ایمان دونوں ہی سلامت رہیں،گوشت فروش معمولی سے مالی فائدے کے لیے عوام اور خواص دونوں کو گدھے کا گوشت کھلا رہے ہیں اور یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے ۔
جہاں تک گدھے کے گوشت کا تعلق ہے تو قصاب حضرات کا کہناہے کہ گدھے کی کھال دوسرے حلال جانوروں کی کھال سے بہتر تصور کی جاتی ہے اور مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے ،گدھے کی کھال جلد صاف ہوتی ہے اور خوبصورت دکھتی ہے ، تھوڑی سی محنت کرکے گدھے کی کھال کو گھوڑے کی کھال بنادیاجاتاہے ، اس سے قبل کسی جگہ اگر گدھامراپڑاہوتاتو لوگ اس کی کھال اُتارلیتے جبکہ بچے کھچے گوشت پر چیل کووں کی پارٹی ہوجاتی لیکن گوشت کی مانگ کو دیکھتے ہوئے لالچی افراد نے کھال کے بعد گدھے کے گوشت کا بھی دھندا شروع کردیااورسستے داموں قصائیوں ، بڑے ریسٹورنٹس اورشادی ہال وغیرہ کو بیچ جاتے ہیں جس کے استعمال سے متعلقہ ہالزکو بھی کافی آمدن ہوتی ہے ۔قصائی کی دکان پر لٹکی،پانی سے شرابور گدھے کی ران بھی بالکل گائے یابچھڑے کی ران محسوس ہوتی ہے ۔
بات گدھے کے گوشت تک محدود نہیں ، اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ برائلر مرغی بھی حرام ہی کھلائی جاتی ہے اوراِسے برائلر گوشت کا کام کرنیوالے حضرات اپنی فیلڈمیں ”ٹھنڈے گوشت“ سے منصوب کرتے ہیں ۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق شادی کی تقاریب یا کسی ہوٹل وغیرہ کو عمومی طورمخصوص مقامات سے ایساہی گوشت فراہم کیاجاتاہے ، لوگ آرڈر دے کر چلے جاتے ہیں اور فرج میں موجود حرام مرغیوں کا گوشت تھیلوں میں بند کرکے فراہم کردیاجاتاہے اوراس دھندے میں بعض ہوٹلز وغیرہ کے خریداری سے متعلق افراد بھی ملوث ہیں ۔
اس کا ایک آسان طریقہ تو یہ ہوسکتاہے کہ مخصوص مقامات پر ہی جانور ذبح کرنے کی اجازت ہواور قصائی حضرات یا ہوٹل مالکان وغیرہ وہیں سے گوشت خریدنے کے پابند ہوں ، لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دوسراحل یہ ہوسکتاہے کہ دیہی آباد ی کے مکین پہلے بھی کم گوشت خور ہوتے ہیں اور عمومی طورپر دال سبزی کھانے کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں ، شہری آبادی بھی گوشت کی طلب کم کردے یا کچھ عرصے کے لیے بالکل ہی گوشت کھاناچھوڑ دے تو سپلائی کے مقابلے میں ڈیمانڈ کم ہوجائے گی تو ناجائزمنافع خور خود ہی بھاگ کھڑے ہوں گے ۔