وفاقی بجٹ اورتاجر برادری

وفاقی بجٹ اورتاجر برادری
وفاقی بجٹ اورتاجر برادری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی بھی عمارت کی خوبصورتی اورپائیداری کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کی بنیاد مضبوط ہوتا کہ وہ طویل عرصہ تک ٹکی رہے۔ تاجر بھی اس ملک کی معاشی عمارت کی بنیاد ہیں جنہیں مضبوط بنانے بغیر معاشی عمارت کا دیر تک قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے مالی سال 2016-17ء کے لئے طویل عرق ریزی اور تاجر رہنماؤں سے مشاورت کے بعد بجٹ تجاویز مرتب کر کے متعلقہ حکومتی اداروں کو بھجوادی ہیں۔ کچھ روز پہلے وزیر اعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر نے فون پر بتایا کہ متعلقہ وزارتیں چیمبر کی بجٹ تجاویز پر سنجیدگی سے غور کررہی ہیں جو بڑی خوش آئند بات ہے۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ حکومت کو بڑے ڈیموں کی تعمیر اور توانائی کی پیداوار کے نئے منصوبوں پر کام کرنا ہی چاہیے کیونکہ صنعتوں کو رواں دواں رکھنے کے لئے ضرورت کے مطابق بجلی کی دستیابی ناگزیر ہے اور وہ بھی ہائیڈل ذرائع سے، کیونکہ تھرمل ذرائع انتہائی مہنگے اور تجارتی خسارے میں اضافے کا سبب ہیں۔ میں یہاں خصوصی طور پر لاہور چیمبر کی ان بجٹ تجاویز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو براہ راست صنعتکاروں اور تاجروں سے متعلقہ ہیں۔ لاہور چیمبر کی جانب سے بھجوائی گئی بجٹ تجاویز میں حکومت پر زور دیا گیا ہے۔کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذیلی منصوبے مکمل کرنے کے لئے مطلوبہ اشیاء درآمد کر نے کی بجائے مقامی مینو فیکچررز کو ترجیح دی جائے جس سے انہیں موقع ملے گا کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھائیں۔
صنعتوں کو وسعت ملنے سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اورحکومت کے محاصل بھی بڑھیں گے لیکن اس کے لئے ضرور ی ہے کہ حکومت مقامی صنعتوں کو ترجیح دے۔ فی الوقت تو مقامی مینو فیکچررز کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ حکومت نے سی جی او نمبر3،2015 کے ذریعے پچیس میگاواٹ سے زائد کے پاور پراجیکٹس میں مقامی مصنوعات کا استعمال روک دیا ہے۔ایس آر او565کے زیر اثر آنے والی انڈسٹری سے خام مال پر کسٹم ڈیوٹیز میں رعایت واپس لے لی گئی ہے اور زیادہ تر کیسز میں خام مال پر امپورٹ ڈیوٹی دس فیصد سے بڑھا کر بیس فیصد کر دی گئی ہے جس کا نتیجہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ اگر مقامی مینو فیکچررز کے لئے مسابقتی صورت حال پیدا نہ کی گئی تو وہ چین پاکستان اکنامک کا ریڈور سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہیں گے لہٰذا یہ معاملہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔
ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکسوں کے پیچیدہ اور بے رحمانہ سسٹم کو آسان، عام فہم اور تاجر دوست بنایا جائے، ٹیکس وصولی کے اہداف تب تک پورے کرنا ممکن نہیں جب تک تاجروں اورٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں اچھے تعلقات نہ ہوں۔ اسی سلسلے میں لاہور چیمبر نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو بینک اکاؤنٹس تک رسائی جیسے اقدامات سے بھی گریز کرے کیونکہ ان کی وجہ سے کاروباری ماحول بہت خراب ہو رہا ہے۔ٹیکس دہندگان کو پہلے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے،ایسے میں فیڈرل بورڈ آف ریو نیو ان کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرکے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ بینک اکاؤنٹس تک رسائی آخری قدم ہونا چاہیے لیکن ریجنل ٹیکس آفسز/لارج ٹیکس پیئر یونٹس ٹیکس اہداف پور ے کرنے کے لئے فوری طور پر انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ لاہور چیمبر نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ سمگلنگ روکنے کے لئے انتہائی سخت اقدامات اٹھائے جس سے صرف مقامی صنعتیں ہی تباہ نہیں ہو رہیں بلکہ حکومت کو بھی محاصل کی مد میں اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ سمگلنگ روکنے کے لئے بارڈرز پر جدید ترین مانیٹرنگ سسٹم لگانے سمیت تمام ممکن اقدامات اٹھائے جائیں کیونکہ سمگلنگ معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے جبکہ سمگل شدہ اشیاء کی چیکنگ کے نام پر مارکیٹوں میں چھاپوں نے تاجر برادری میں خوف وہراس کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ افغانستان، ایران، چین اور بھارت سے سمگل شدہ اشیاء ایک سیلاب کی طرح بلا روک ٹوک آرہی ہے، چونکہ ان پر کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے حکومت کو بہت بھاری نقصان ہو رہا ہے، سستی ہونے کی وجہ سے صارفین انہیں مقامی اشیاء پر ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی صنعتیں بھی تباہ ہو رہی ہیں، یہی صورت حال رہی تو صنعتیں تیزی سے بند اور لوگ بے روزگار ہوں گے۔
ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی زیادہ شرح سمگلنگ کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہی ہے لہٰذا حکومت ان اشیاء پر ڈیوٹیاں اور ٹیکس کم کرے جو سمگلنگ کے لئے کشش رکھتی ہیں۔ بارڈرز پر جدید سکینرز نصب کئے جائیں تاکہ غیر ملکی مصنوعات سمگل ہو کر ملک میں نہ آسکیں اور چیک پوائنٹس پر ایماندار اور با صلاحیت افسران تعینات کئے جائیں۔ ریفنڈ کلیمز کی ادائیگی میں تاخیر ایک دیرینہ مسئلہ ہے، تاخیر کی وجہ سے کاروباری افراد کا بھاری سرمایہ پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے کاروبار چلانے میں مشکلات کا سامناہے۔ میرا مشورہ ہے کہ ٹیکس ریفنڈ کلیمز ریٹرن فائل کرنے کے دوماہ کے اندر ادا کئے جائیں جبکہ طویل عرصہ سے التوا پذیر ریفنڈز کے لئے بینکنگ بانڈز جاری کئے جا سکتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے تاجروں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ حکومت اس وفاقی بجٹ میں ان کے لئے کا ٹیج سٹی کے قیام کا اعلان کرے لہٰذا حکومت کو یہ مطالبہ اب پورا کرہی دینا چاہیے۔ کاٹیج انڈسٹری کی طرف توجہ دیکر حکومت غربت اور بے روزگاری کے خاتمے سمیت بہت سے معاشی مسائل حل کرسکتی ہے لہٰذا حکومت کو وفاقی بجٹ میں اس کے لئے خصوصی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ بنگلہ دیش، چین اور بھارت نے کاٹیج انڈسٹری کو ترقی دیکر بے شمار معاشی فائدے حاصل کئے لہٰذا ہمیں بھی ایسے ہی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

مزید :

کالم -