فتح ویسٹ انڈیز ،حمزہ شہباز کپ اور ڈاکٹرنعمان
پاکستان نے ساٹھ سال بعد ویسٹ انڈیز کوتاریخی شکست سے دو چار کیا اورکپتان مصباح الحق کو وہ اعزاز حاصل ہوا جو تادیر قائم رہے گا ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر سیریز کی جیت کا خواب پورا ہوا اور یوں دہائیوں سے مسلط ناکامی اور شکست اب شاندار جیت میں تبدیل ہو چکی ہے جویقیناً مصباح ،یونس اور ان کے ساتھیوں کی شاندار کارکردگی اور مہارت کا ثبوت ہے۔ وہ بھی ایسی صورتحا ل میں جب ٹیم صرف چار باؤلرز کے ساتھ کھیلتی رہی۔ ٹیم میں مستند اووپننگ بلے بازوں کا شعبہ بھی کمزور ہے۔اظہر علی کے ساتھ ابھی تک احمد شہزاد سمیع اسلم یا حفیظ کے حوالے سے مستقل پارٹنر کو تلاش کیا جا رہا ہے ٹیم میں آل راؤنڈرز بھی نہیں ہیں دوسرے ٹیسٹ میں کم رنز کے بعد تیسرے ٹیسٹ میں پاکستان کو دونوں ٖشعبوں میں سر توڑ کوشش کرنا پڑی۔اور چند گیندوں کے فرق سے پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف معرکہ سرکیا۔ اب ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ میں سرفراز کو فوری طور پر اس عہدے کے لئے موزوں نہیں سمجھتا ۔حفیظ کے ساتھ انہیں نائب کپتان کی حیثیت سے کھیل کو سمجھنے اور جاننے کے لیے مزید موقع اور تجربہ ملنا چاہیے۔ ویسٹ انڈیز میں پاکستان کو دوہونہار فاسٹ باؤلر حسن علی اورمحمد عباس ملے جنہوں نے تیسرے ٹیسٹ کی تاریخی جیت کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ بہر حال قومی سلیکشن کمیٹی کورزاق ، اظہر محمود اور آفریدی جیسے آل راونڈر تلاش کرنا ہوں گے۔حسن علی محمدعباس کے مقابلے میں زیادہ موثرباؤلر دکھائی دیے جبکہ محمدعباس وکٹ ٹو وکٹ باؤلنگ کرنے والے عمدہ فاسٹ باؤلرز ہیں۔
ویسٹ انڈیز کا تاریخی دورہ اختتام پذیر ہوا اور اس کے ساتھ ہی مصباح الحق اور یونس خان کابے مثال ، پر وقار،شاندار اور یادگار عہد بھی انجام کو پہنچامیں بلا تامل یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے پائے کے بیٹسمین پاکستان کو آئندہ دستیاب نہیں ہوں گے اور یوں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی مشکلات مزید گی جس کا تصور یقیناشائقین کرکٹ کے لیے تکلیف دہ ہوگا۔اس محرومی کوپی سی بی اور سلیکشن کمیٹی کو سمجھنا ہوگا۔پی سی بی کے پاس مقامی اورقومی سلیکٹرزکی فوج ظفرموج ہے۔ اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک بھر سے گوہر نایاب تلاش کریں اور اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں جو دوعظیم کھلاڑیوں کے رخصت ہونے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ بہر حال ’’کتاب عشق کا اک اور باب ختم ہوا‘‘ لاہور پاکستان کا اہم ترین ثقافتی مرکز ہے۔ اور اسی طرح کرکٹ کا گڑھ بھی ۔ ایک عرصہ سے ہماری یہ خواہش رہی ہے کہ اس شہر کی کلب کرکٹ کو فروغ ملے ۔کھلاڑیوں کی پذیرائی ہو اور مقامی کلب کرکٹ کے حوالے سے سرگرمی اور کھیل کے میدان سجائے جاتے ہیں۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ایل آر سی اے کے صدر خواجہ ندیم میدان عمل میں سرگرم ہیں اور اس سلسلے میں گزشتہ دنوں لاہور کے کلبوں کے ہونہار کھلاڑیوں پر مشتمل حمزہ شہباز گولڈ کپ ٹورنا منٹ کا اہتمام کیا گیا۔ انتظامات انتہائی شاندار تھے لاہور کی منتخب سرسبز کرکٹ گراؤنڈ میں میچزکھیلے گئے جبکہ ہمارے متحرک دوست عمران بچہ اور نوشاد علی سر گرم ہوئے اور معقول سپانسرشپ بھی حاصل کی گئی پر انے کرکٹ منتظم وقارلمنیر کی کاوش بھی قابل تعریف تھی ۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور کی کلب کرکٹ کا عظیم الشان فائنل پی ٹی وی سپورٹس پربراہ راست نشر کیاگیاجسے لاکھوں شائقین کرکٹ نے دیکھا۔ اس موقع پر سابق کرکٹر ،شائقین کرکٹ ، کھلاڑیوں کے والدین اور دوستوں کی بڑی تعداد میچ دیکھنے کے لئے موجود تھی۔ اگرچہ پچاس اور کے اس فائنل میں لاہور شالیمار کی ٹیم لاہور ایگلز کے خلاف صرف ایک سو اٹھائیس رنز بنا سکی ۔ تاہم نوجوان اسد اور وقاص کے علاوہ دیگر فاسٹ باؤلرز کی رفتار دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستان میں فاسٹ باؤلرز کا مستقبل ان نوجوانوں کی وجہ سے تابناک اور حوصلہ افزا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن ملک کا سب سے بڑا نشریاتی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد رکھنے والے بھی باکمال لوگ تھے۔ اس کی تاریخ جہاں اس کے لاجواب ڈراموں ، موسیقی اور دیگر سماجی شعبے کے پروگراموں سے مزین ہے وہاں وہ کھیلوں کے شعبہ میں بھی اس کی کارکردگی کسی اور شعبے سے کم نہیں۔پی ٹی وی پر کھیلوں اور کرکٹ کے پروگراموں میں شرکت کرنا ماہرین اور سابق کھلاڑیوں کے سکہ بند ہونے کی سند سمجھی جاتی تھی۔ ہم گزر ے ہوئے سلسلے کی کھینچی ہوئی لائن کو مزید آگے نہیں بڑھاتے مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے پی ٹی وی سپورٹس چینل کے قیام کے بعد سرکاری ٹی وی پہلے سے قائم شدہ نجی ٹی وی کے لیے چیلنج ثابت ہوا بلکہ بلاشبہ اس وقت وہ ناظرین کی تعداد کے نقطہ نگاہ سے سب سے بڑا مرکز نگاہ ہے۔ ٹیلی ویژن پر ہمہ وقت دکھانے کے لئے پروگرامز،ٹاک شو، لائیوکوریج اور دستاویزی پروگرام تیار کرنا پڑتے ہیں۔
اب لائیوکوریج کے معیار اور تقاضے بدل چکے ہیں۔جہاں ٹیکنالوجی نے پروڈیوسرز کی مددکی ہے وہاں ذہین اور تجربہ کار افراد کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ پی ٹی وی کے ڈائریکٹر سپورٹس ڈاکٹرنعمان شائقین کرکٹ اور ناظرین میں اینکر اور تجزیہ کا ر کے طور پر جانتے ہیں اور یہی ان کی وجہ شہرت بھی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ان کی ایک ایسی بڑی لائبریری اور میوزیم ہے جہاں انہوں نے ذاتی محنت اور مالی وسائل خرچ کر کے لاتعداد نایاب کتابیں اور بیش قیمت نوادرات جمع کررکھے ہیں ڈاکٹر نعمان ایک سکہ بند تاریخ دان اور ادر تاریخی اشیاء استعمال کر نے والے منتظم ہیں۔ پی ٹی وی پر چلنے والے پرانے میچز کی کلپس انہی کی عطا کردہ ہیں سابق کرکٹر ہونے کے ناطے کرکٹ پر بولنا اور لکھنا ان کے لیے مشکل نہیں۔ پی ٹی وی کارپوریشن ایک سرکاری ادارے کے ناطے عوام کے بہت قریب ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان کپ میں ڈاکٹر صاحب نے تمام سینئر کرکٹ کمنٹیٹرکو اکٹھاکیا مجھے چشتی مجاہد ، طارق رحیم اور اے آر زیدی کے ساتھ ایک کمنٹری کا اتفاق ہوا جبکہ نوجوان کمنٹیٹرزکی ایک حوصلہ افزا تعداد بھی کو مینٹری پینل میں موجود تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو اسی خطرے سے بچنا چائیے ۔اچھی بات ہے کہ سابق کرکٹر اور موجودہ ایم ڈی پی ٹی وی بھی کرکٹ کو ریج اور معیاری کو مینٹری کے سر پرست ہیں۔ امید ہے کرکٹ کے حوالے سے پی ٹی وی اپنے معیار کو بلند رکھے گا اور پی ٹی وی سپورٹس کی سکرین پر اس مثبت ماحول کا تاثر کھیل سے پیار کرنے والوں تک پہنچتارہے گا۔