ازبیکستان انگڑائی لے رہا ہے
اس ہفتے تاشقند میں مختلف تقریبات کی بھرمار رہی۔ ایک تو باقاعدہ مستقل بنیادوں پر انٹرنیشنل پریس کلب کی بنیاد رکھی گئی۔ ”زور ٹی وی“ کی عمارت میں یہ تقریب منعقد ہوئی۔ ازبیکستان کے وزیر خارجہ اور سینیٹ کے چیئرمین نے اس تقریب سے خطاب فرمایا۔ موضوع تھا ”ازبیکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات“ تقریب میں یہاں کام کرنے والے غیر ملکی صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ اس کے علاوہ یہاں غیر ملکی سفارتکاروں اور چیدہ چیدہ مقامی صحافیوں و دانشور ہستیوں نے شرکت کی۔ پاکستان کے سفیر ریاض حسین بخاری اورراقم بھی تقریب میں موجود تھے۔
ازبیکستان کے نئے صدر شوکت میر ضیائیف نے اقتدار سنبھالتے ہی اولین دورے اپنے ہمسائیوں یعنی ترکمانستان، قزاقستان، روسی فیڈریشن کے کئے۔ پھر مختلف ہمسایہ اور نزدیکی ممالک میں وفود بھیجے گئے۔ پاکستان یکے بعد دیگر دو وفود بھیجے گئے جنہوں نے پاکستانی بزنس مینوں کو ازبیکستان آنے کی دعوت دی۔ ایک اندازے کے مطابق جب ازبیکستان آزاد ہوا تو پہلے چند سالوں میں کوئی پانچ ہزار کے قریب پاکستانی یہاں آگئے تھے اور یہ لوگ متواتر پاکستانی اشیائے صرف یہاں لاکر بیچ رہے تھے۔ ازبیکستان بلکہ وسطی ایشیاءکی مارکیٹیں پاکستانی اشیاءسے بھرگئی تھیں۔ یہ سب لوگ چھوٹے اور درمیانے درجے کے بزنس مین تھے۔ صرف تابانی کارپوریشن نامی ایک بڑا گروپ یہاں کام کررہا تھا اور اس کا کام و نام عام و خواص آج بھی یاد رکھتے ہیں۔ اس وقت ازبیکستان ائیرلائن نے تاشقند لاہور تاشقند کے لئے ہفتہ وار دو پروازیں پھر سے شروع کردی ہیں اور ماہانہ کوئی ڈیڑھ ہزار مسافر ان سے سفر کررہے ہیں۔ جن کی ایک خاصی تعداد تاشقند کی سیر کرتی ہے اور یہاں کے نئے معاشی حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ باقی ایسے مسافر بھی ان پروازوں سے سفر کرتے ہیں جو تاشقند سٹاپ اوور کرکے آگے یورپ یا CISکے دوسرے ممالک کو روانہ ہوجاتے ہیں۔
نئے صدر نے چین کا دورہ بھی کیا ہے اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شرکت بھی کی ہے۔ چین اور ازبیکستان کے درمیان کئی ارب ڈالرز کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔ میر ضیائیف نے اپنی بیوروکریسی اور وزراءکو مزید ایکٹو کردیا ہے۔ وہ دوستی و معاشی تعلقات کے معاملے میں ہمسائیوں کو زیادہ ٹارگٹ کررہے ہیں اگرچہ طالبان کے سامنے آنے کے ساتھ ہی نہ صرف ازبیکستان بلکہ CISکے دوسرے ممالک سے بھی پاکستانیوں کی چھٹی کرادی گئی تھی جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی کاروباری حلقے بھگت رہے ہیں لیکن اب ایک نئی صورتحال وجود میں آئی ہے۔ سیاسی طور پرر وس چین دوستی اس علاقے کے ممالک کے لئے نئے بہتر حالات پیدا کررہی ہے جن سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے ۔ اس وقت جو چند پاکستانی مجاہد کاروباریا فراد وسطی ایشیا میں کام کررہے ہیں انہوں نے بڑے مشکل حالات و مجبوری کے عالم میں بھی پاکستان کا نام یہاں بلند رکھا۔ پاکستانی کاروباری وفود کو ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ترکش لیڈر اردوان نے جس تیزی سے روس کے ساتھ خراب ہونے والے تعلقات کو سنبھالا ہے اس پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہپیے ۔جب ناٹو کی سازش سے ترکش روسی قیادتوں کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا اور ہر سال ہزاروں بلکہ لاکھوں روسی سیاحوںکا ترکی جانا روک دیا گیا اسی طرح کھربوں ڈالر کی ترکش اشیائے ضروریہ ماسکو آنا بند ہوگئیں تو اردوان کو احساس ہوا کہ وہ امریکہ اور ناٹو کے جال میں اس طرح پھنس گیا ہے جیسے کہ مکھی مکڑی کے جال میں پھنس گئی ہو ۔تاہم اس نے روس کا دورہ کیا اور پے در پے کوششوں سے ایک سال کے اندر اندر روس سے پھر جپھی ڈال لی۔
یہی وجہ ہے کہ جب چین نے ون بیلٹ ون روڈ عالمی کانفرنس کی تو وہاں 29 ممالک کے اعلیٰ راہنما یا پھر بیسیوں عالمی سیاسی راہنماﺅں کی موجودگی کے باجود سب سے زیادہ اہمیت روس اور ترکی کے راہنماﺅں کو دی گئی۔ اس کی ایک عملی وجہ بھی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں میں شامل اکثر بلکہ تمام ممالک میں سرمایہ کاری چین کررہا ہے جبکہ روس اور ترکی اپنے ممالک میں ان منصوبوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ کھلا اعلان کرتے ہیں کہ وہ ان منصوبوں میں سرمایہ کاری اپنی جیبوں سے کریں گے۔
ان دنوں ایک دوسری تقریب یہاں کے مستقل ایکسپو سنٹرمیں غیرملکی سفارتخانے کی طرف سے ایک فوڈ فیسٹیول کا انعقاد تھا۔ اس کا انتظام ازبیک وزارت خارجہ کے ڈپلومیٹک سروس ڈیپارٹمنٹ نے کیا۔ یاد رہے ”ثقافتی روایات اور قومی کھانے“ نامی یہ فیسٹیول 15 ویں بار کیا جارہا تھا۔ ہر سفارتخانے نے اپنا سٹال لگایا تھا اور وہاں سستی قیمتوں پر یا مفت اپنے قومی کھانے پیش کررہا تھا۔ یاد رہے کہ یہ فیسٹیول ہر سال منعقد ہوتا ہے اور ان کھانوں سے ہونے والی آمدنی چیریٹی فنڈ کے طور پر غریب لوگوں کی مدد کے کام آتی ہے ۔ ہمیں بھی اس فیسٹیول میں شرکت کیلئے انڈونیشین سفارتخانے اور وزارت خارجہ کے دعوت نامے ملے۔ فیسٹیول میں پاکستانی سٹال بھی لگایا گیا تھا۔ جہاں پاکستانی سفارتکار جناب حبیب بلوچ، طاہر عزیز موجود تھے بلکہ جناب سفیر بھی مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ہم نے پاکستانی بریانی اور شامی کبابوں سے انجوائے کیا۔ انڈونیشین سفیر جناب اے اے جی الیت نے بھی ہماری خوب مہمان نوازی کی۔ ایرانی سٹال کے ساتھ ساتھ ہم نے ترکش، سعودی، چیک، آذربائیجانی اور روسی سٹالوںکا بھی دورہ کیا اور ان کی میزبانی سے لطف اٹھایا۔ اس فیسٹیول میں ہر قسم کا تضاد و امتزاج تھا۔ ایک طرف یورپی سفارتخانے اپنے سٹالوں پر مفت بیئر اور وائن کے جام تقسیم کررہے تھے تو دوسری طرف سعودی و عربی سٹالوں پر قرآن پاک اور کھجوریں گفٹ کی جارہی تھیں۔ ہمارے گروپ میں رانا ریاض، آصف ڈار اور ان کے اہل خاندان وغیرہ شامل تھے۔ فیسٹیول کا کمال یہ بھی ہے کہ دیگر غیر ملکیوں اور تاشقند میں رہنے والے پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے اور گپ شپ کا موقع ملتا ہے۔ کھانوں کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے فنکاروں نے اپنی اپنی روایات کے مطابق رقص و نغمہ بھی پیش کیا۔ سخت گرمی کے باوجود دن بھر گہما گہمی رہی اور ازبیک سرزمین پر عالمی دوستی کو تقویت ملتی رہی۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔