اسمبلی کے ایوان کو بازیچۂ اطفال نہ بنائیں
پنجاب اسمبلی کے آخری اجلاس میں اپوزیشن اور حکومت سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی آپس میں گتھم گتھا ہوگئے، الوداعی ایام میں خوش اسلوبی سے جدا ہونے کی بجائے ایک دوسرے کو گالیاں دی گئیں، لاتوں اور گھونسوں کا استعمال بھی فری فار آل تھا، اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن عارف عباسی کی طرف سے طارق مسیح گل کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال پر لڑائی شروع ہوئی، اقلیتی ارکانِ اسمبلی احتجاجاً واک آؤٹ کرگئے، اور عارف عباسی کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا لیکن سپیکر کے کہنے پر عارف عباسی اور اپوزیشن لیڈر محمود الرشید نے سب سے معذرت کرلی، جس پر اقلیتی ارکان ایوان میں واپس آگئے۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اس طرح کے بد صورت مناظر اگرچہ گزشتہ پانچ برس کے دوران کئی بار دیکھنے میں آئے، اجلاسوں کا بائیکاٹ بھی ہوتا رہا، سپیکر ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا جاتا رہا، اجلاس کے ایجنڈے اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں بکھیرنے کے مناظر تو پورے ملک کی اسمبلیوں میں دیکھے بھالے ہیں، ایسا بھی ہوا کہ اپوزیشن ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اسمبلی ہال کی سیڑھیوں پر پریس کانفرنسیں کیں جو میڈیا سے براہ راست نشر ہو کر پورے ملک کے ناظرین کے سامنے آئیں، لیکن یہ اجلاس چونکہ آخری اجلاس تھا اور انتخابات کے بعد جو نئی اسمبلی آنے والی ہے اس میں بہت سے نئے چہرے آنے کی امید ہے، کیا خبر آج جو ارکان اس معزز ایوان میں ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے اور ان پر گالیوں کی بوچھاڑ کررہے ہیں اگلے ایوان میں نظر بھی آئیں گے یا نہیں، ویسے بھی الوداعی اجلاس میں سلیقے سے الوداع ہونا ہی شرفا کی روایت ہے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا، گالیوں اور ایک دوسرے کے خلاف آستین چڑھا کر گنواروں کے سے طریقے اختیار کرلینا قطعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ اگرچہ کہا یہی جاتا ہے کہ اسمبلیوں کے ایوان ’’بے جان‘‘ نہیں ہوتے نہ یہاں قبرستان کاسا سناٹا ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ تہذیب و شائستگی کو بالائے طاق رکھ کر گالم گلوچ پر اتر آیا جائے، الزام تراشیاں کی جائیں اور جب یہ سب کچھ ہو جائے تو معذرت کرلی جائے، کیا اس سے پہلے ہی شائستہ اطوار اختیار نہیں کئے جاسکتے؟
ویسے تو سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کوئی نئی بات نہیں ہے، ملک میں پہلا مارشل لاء لگنے سے پہلے مشرقی پاکستان اسمبلی میں ایسے ہی بد صورت مناظر دیکھنے میں آئے تھے، یہاں تک کہ ڈپٹی سپیکر کو کرسی مار کر اس حد تک زخمی کردیا گیا تھا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس وقت سیاستدانوں پر جو الزامات لگائے جاتے تھے یہ واقعہ بھی ان میں نمایاں تھا، لیکن ہمارے ہاں کچھ عرصے سے سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں جس طرح کے الزام لگا رہے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر اسمبلی میں غیر پارلیمانی الفاظ عام استعمال ہونے لگے ہیں جو سپیکر کی طرف سے حذف بھی کرا دیئے جائیں تو بھی ہنگامہ آرائی کا باعث بنتے ہیں، جن دنوں تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر دھرنا دے رکھا تھا، اور کنٹینر پر اس طرح کی تقریریں ہورہی تھیں کہ ارکان اسمبلی چور اور ڈاکو ہیں، وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کے خلاف بھی نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے یہاں تک کہ خواتین ارکان کو بھی نہیں بخشا گیا، ایوان میں گالم گلوچ کرتے وقت بھی اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ معزز ایوان میں خواتین بھی تشریف فرما ہیں۔
ارکانِ اسمبلی اشتعال میں کیوں آجاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے نیچ حرکات کیوں شروع کردیتے ہیں، اس کا باقاعدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، ہوسکے تو ماہرین نفسیات سے بھی مدد لے لی جائے کہ ارکان جب اس طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کے پس منظر میں کیا محرکات ہوتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا یہی گیا ہے کہ ایک رکن کسی دوسرے رکن کے خلاف یا اس کے لیڈر کے خلاف غیر شائستہ الفاظ استعمال کردیتا ہے تو جواب میں ایسے ہی اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، اس کا آسان اور سادہ حل تو یہ ہے کہ کوئی بھی رکن کسی بھی دوسرے رکن یا کسی لیڈر کے خلاف غیر شائستہ الفاظ استعمال نہ کرے، کیونکہ اگر ایک رکن ایسا کرے گا تو اسے جواب بھی ملے گا، جہاں تک الزامات کا تعلق ہے اس میں اگر کوئی حقیقت بھی ہو تو بھی ایوان میں اشتعال انگیز ماحول کے امکانات سے بچنے کے لئے ان کا ذکر نہیں ہونا چاہئے، بعض ارکان اگر مخالف لیڈر کے خلاف بیان بازی کو اپنا حق سمجھتے ہیں تو پھر انہیں فراخ دلی کے ساتھ جواب سننے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے اور جوابی طور پر فوری اشتعال میں نہیں آنا چاہئے۔ اس کا حل تو یہی ہے کہ نہ کسی کے خلاف اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے جائیں اور نہ کسی کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ جوابی طور پر اشتعال میں آئے لیکن اس سنہری اصول پر ہمارے معزز ارکان عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، نتیجے کے طور پر ہمیں بد صورت مناظر سے واسطہ پڑتا ہے۔
اسمبلی میں اگر سنجیدہ بحث ہورہی ہو تو ارکان بھی لا تعلق سے ہوکر بیٹھے رہتے ہیں، کوئی اپنے موبائل سے کھیل رہا ہوتا ہے اور بیک بنچرز آپس میں گفتگو کررہے ہوتے ہیں، سپیکر بار بار اس کا نوٹس بھی لیتے ہیں لیکن ارکان عموماً اس کا اثر قبول نہیں کرتے، تقریریں جاری رہتی ہیں اور ارکان کا ’’کاروبار‘‘ بھی چلتا رہتا ہے، جونہی ایوان میں کسی جانب سے فقرے بازی شروع ہوتی ہے ’’مردہ‘‘ ایوان میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ارکان آستینیں چڑھا کر میدان میں آجاتے ہیں، اور ایوان میں یکا یک ایسی حرکات شروع ہوجاتی ہیں جو بھلے سے نا پسندیدہ ہوں لیکن میڈیا کی توجہ کا مرکز ٹھہرتی ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ سنجیدہ بحث یا تو وہاں جگہ نہیں پاتی اور اگر پاتی ہے تو انتہائی غیر نمایاں، شہ سرخیاں ہمیشہ لڑائی جھگڑے کے واقعات کو ہی محیط ہوتی ہیں جیسا کہ الوداعی اجلاس کے مناظر میں دیکھنے میں آئیں، اب یہ اسمبلی تو رخصت ہونے والی ہے، ہماری تجویز یہ ہے کہ اگلے ایوان میں اس جانب توجہ دی جائے، ارکان اسمبلی حقیقی مسائل اور ان سے متعلق قانون سازی پر توجہ دیں، جہاں تک لڑائی جھگڑے کا تعلق ہے، بہتر ہے وہ یہ کام ایوان سے باہر کریں کیونکہ ایوان میں ایسے مناظر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ارکانِ اسمبلی ابھی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے اور اسمبلی کو بازیچہ اطفال بنائے رکھتے ہیں۔