شاہد خاقان سے ملاقات کے بعد خورشید شاہ پر اتعماد ، نگران وزیر اعظم کا نام ابھی راز

تجزیہ،سہیل چوہدری
کون بنے گا نگران وزیراعظم ؟دارالحکومت میں ہرجگہ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آئندہ نگران سیٹ اپ میں وزیراعظم کون ہوگا،اس حوالے سے گزشتہ روز وزیرعظم شاہد خاقان عباسی اوراپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ کی ملاقات ہوئی تاہم دونوں رہنماؤں کی جانب سے نگران وزیراعظم کیلئے کوئی نام سامنے نہیں آیا،بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ تاحال کسی نام پر اتفاق نہیں ہوا ،لیکن دارالحکومت کے بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن رہنما سید خورشید شاہ کے مابین مثبت اورتعمیری ملاقاتیں جاری ہیں ،ان ملاقاتوں میں ابتدائی سطح کی ’’انڈرسٹینڈنگ‘‘ہوچکی ہے لیکن بوجوہ ان ملاقاتوں کا احوال طشت ازبام نہیں کیا جارہا جبکہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی جانب سے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ کے موقع پر اس موضوع پر اپوزیشن رہنماسید خورشیدشاہ نے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اس بارانہوں نے نگران وزیراعظم کیلئے متوقع نام اپنے سینے سے لگارکھے ہیں اوردونوں اطراف سے نام پر اتفاق کی صورت میں بھی قبل ازوقت نگران وزیراعظم کانام افشا کرنے سے میڈیا اس کوآڑے ہاتھوں لے گا اس لیے انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ اسی وجہ سے اس بار غیرضروری طورپررازداری برتی جارہی ہے ۔تاہم انہوں نے امید ظاہرکی تھی کہ انکا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ کسی نام پر اتفاق ہوجائیگا۔ان کے اس لب ولہجہ میں اعتماد کو دیکھتے ہوئے قرین قیاس یہی ہے کہ گزشتہ روزانکی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات بامعنی اورسود مند رہی ہوگی اگرچہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس اہم ملاقات کے بعد ترکی میں فلسطین اور بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کے قیام سے پیدا شدہ بحران اور المیہ پر اسلامی دنیا کے اجلاس میں شرکت کیلئے روانہ ہوگئے اور میڈیا کیلئے متوقع نگران وزیراعظم کانام جاننا مزید کٹھن ہوگیا،دارالحکومت کے سرکاری حلقوں میں سابق گورنر سٹیٹ بنک کا نام سرفہرست لیا جارہا ہے کیونکہ ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج اقتصادی اورمعاشی محاذ پر درپیش ہے جبکہ ڈاکٹر عشرت حسین کے بارے میں تاثر ہے کہ ان کے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف سے بھی اچھے مراسم ہیں مزید یہ کہ ڈاکٹر عشرت حسین خود بھی اپنی مارکیٹنگ نہایت عمدگی سے کررہے ہیں انکی حال ہی میں پاکستان میں گورنس کے چیلنجز پر ایک عمدہ کتاب (گورننگ دی اَن گورن ایبل ) بھی سامنے آئی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہوں نے نہایت سرعت کیساتھ چین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات استوارکرلیے ہیں اورحال ہی میں پاکستان کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتحال کی بہتری کیلئے چین کی طرف سے تین ارب ڈالر کے خطیر قرضہ کی فراہمی میں بھی ڈاکٹر عشرت حسین کاکردار گردانا جارہا ہے اسی طرح سابق گورنر سٹیٹ بنک بیگم شمشاد اختراورسابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کے نام بھی سرکاری حلقوں میں زیرگردش ہیں۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے یہ نام تجویز کیا تھا لیکن اس پرسابق صدرآصف علی زرداری اتفاق کرنے پر تیار نہیں اورانہوں نے اس نام کو یکسر مسترد کردیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق صدرزرداری ملیحہ لودھی کے نام سے بہت شاکی ہیں۔جبکہ سیاسی حلقوں میں تصدق حسین جیلانی کا نام سرفہرست ہے لیکن بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تصدق جیلانی پر قدرے اتفاق رائے ہے لیکن تصدیق حسین جیلانی تاحال خود نگران وزیراعظم کاعہدہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تاہم دارالحکومت میں عمومی طور پر یہ خیال ہے کہ آئندہ منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اوراپوزیشن رہنما سید خورشید شاہ کے مابین متوقع ملاقات میں اس اہم ترین سوال کاجواب مل جائیگا دوسری جانب قومی اسمبلی میں حکومت کے پیش کردہ چھٹے بجٹ 2018-19کی منظوری دیدی گئی ۔حکومت نے اپنی مدت کا یہ ایک اہم ترین سنگ میل بھی خداخداکرکے عبورکرلیا ہے دارالحکومت میں بعض حلقوں کادعویٰ تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بجٹ منظورکرواتے ہوئے بحران کاشکار ہوسکتی ہے لیکن ایسا نہ ہوسکا،تاہم بجٹ منظوری کے اجلاس سے میڈیا نے واک آؤٹ کیا جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب سے کہا کہ وہ پریس گیلری کے اراکین کو مناکر واپس لائیں لیکن حیرت انگیز طورپرانہوں نے سنی ان سنی کردی جس پر میڈیا ورکرز نے اسمبلی کے گیٹ پر دھرنا بھی دیا جس میں پی ٹی آئی اورپیپلز پارٹی کے بعض اراکین بھی شامل ہوگئے۔
کیپیٹل واچ