محض انتظامی اقدامات سے روپیہ نہیں سنبھل سکے گا

محض انتظامی اقدامات سے روپیہ نہیں سنبھل سکے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


انٹر بینک اور اوپن کرنسی مارکیٹ میں جمعہ کو بھی ڈالر کی اونچی اڑان برقرار رہی،ڈالر کی قدر کھلی مارکیٹ میں چار روپے اضافے کے ساتھ151 روپے پر پہنچ گئی،پاکستان جب سے قائم ہوا ہے روپے کی اتنی بے قدری کبھی نہیں ہوئی، ڈالر کی پرواز کا اثر سونے کی قیمت پر بھی پڑا ہے اور یہ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے،برطانوی پاؤنڈ، یورو، سعودی ریال اور یو اے ای درہم کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا،سٹاک مارکیٹ میں بھی شدید مندی چھائی رہی، سٹاک بروکرز کی مشیر خزانہ سے ملاقات کے بعد17ارب کا خصوصی فنڈ قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرنسی ایشیا کی کمزور ترین کرنسی بن گئی ہے، یہاں تک کہ نیپال، بھوٹان اور افغانستان جیسے ممالک سے بھی اس کی قدر کم ہو گئی ہے،ایک ڈالر کے بدلے79افغانی ملتے ہیں،جبکہ112نیپالی روپے کے بدلے ایک ڈالر دستیاب ہے۔
وزیراعظم عمران نے منصب سنبھالا تو ڈالر124.50 روپے میں دستیاب تھا، جب روپیہ ڈھلوان کی جانب لڑھکنا شروع ہوا تو ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ ڈالر کی بلند پروازی 150 روپے سے پہلے نہیں رُکے گی،لیکن اب یہ حد بھی عبور ہو گئی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ ڈالر کی قدر مزید بڑھے گی اور یہ 170(یا اس سے بھی زیادہ) سے اوپر جائے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اور جس کی توثیق ابھی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے کرنی ہے اس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ ڈالر کے ساتھ شرح تبادلہ کا تعین سٹیٹ بینک نہیں،بلکہ مارکیٹ فورسز کریں گی۔ مارکیٹ فورسز نے کام دکھایا تو سٹیٹ بینک بے بس نظر آیا، اور خاموشی سے ساری بربادی دیکھتا رہا۔ بینک نے روپے کی قدر کو سہارا دینے کے لئے کوئی مداخلت نہ کی اور اس وقت شرح تبادلہ کا اتار چڑھاؤ غیر ملکی تبادلہ مارکیٹ میں طلب و رسد کی حالت کا عکاس ہے، سٹیٹ بینک، مارکیٹ ریٹ کے مطابق ایکسچینج ریٹ لے کر جا رہا ہے۔
پاکستانی روپے کی اس بے قدری کے معیشت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے، غیر ملکی قرضوں کی مالیت میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا، درآمدی اشیا کی قیمتیں جو کئی ماہ سے مسلسل بڑھ رہی ہیں مزید بڑھ جائیں گی اور ان کا نتیجہ مقامی اشیا کی مہنگائی کی صورت میں بھی نکلے گا،حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے اور مہنگائی کا ایک نیا سونامی آئے گا، اس ماحول میں بجلی سے چلنے والی کاریں متعارف کرانے کی بات کی جائے تو حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،جو فوری طور پر درپیش معاشی مسائل اور مہنگائی سے نپٹنے کی بجائے اگلے دس سال بعد ہونے والے کاموں کو اوّلیت دے رہی ہے، لگتا ہے مہنگائی حکومت کے نزدیک کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ان حالات میں روپے کا ڈھلوان کا سفر روکنے کے لئے حکومت جو کوششیں کر رہی ہے اُن کی نوعیت اقتصادی نہیں، انتظامی نظر آتی ہے، وزیراعظم نے چند روز قبل کرنسی ڈیلروں کو بُلا کر جو ہدایات دی تھیں ان کا تو کوئی اثر نہیں ہوا،کیونکہ ڈالر کی قیمت اس ملاقات کے بعد سے بھی مسلسل بڑھ رہی ہے،اب ایک اور انتظامی قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ ایف آئی اے حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے گی اس کے لئے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں،لیکن کیا ڈالر کی قدر اِس لئے بڑھ رہی ہے کہ حوالہ اور ہنڈی کا کاروبار ہو رہا ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہے تو اُس نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ روپے کی گراوٹ کی حقیقی وجوہ کیا ہیں۔
یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی بھی سابق حکومت ذمے دار ہے، کیونکہ اسحاق ڈار نے تو ایک زمانے میں ببانگ ِ دہل کہہ دیا تھا کہ ڈالر سو روپے سے نیچے آ رہا ہے،جس کسی کے پاس ڈالر پڑے ہیں وہ بیچ دے اور واقعی ایسا ہی ہوا اور کئی ماہ تک یہ شرح برقرار رہی، البتہ اس پر جن لوگوں نے استعفا دینے کا اعلان کر رکھا تھا،انہوں نے تاویلات کا سہارا لے لیا، جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت گئی تو بھی ڈالر 104روپے کے قریب فروخت ہو رہا تھا، وزیراعظم آفس کی جانب سے یہ تو بتایا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں ڈالر کی قیمت کتنی بڑھی اور مسلم لیگ(ن) کے دور میں کتنا اضافہ ہوا،لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ جب مسلم لیگ(ن) کی حکومت گئی تو ڈالر کا ریٹ کیا تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر کتنے تھے اور اب قرض لینے کے بعد بھی اس سطح تک کیوں نہیں پہنچے۔حکومت کو چاہئے کہ ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ روکنے اور اپنی کرنسی کی قیمت میں استحکام پیدا کرنے کے لئے اقتصادی اقدامات کرے، ایف آئی اے کے چھاپوں سے چند دن خوف و ہراس تو پھیلایا جا سکتا ہے، چند لوگوں کو گرفتار کر کے ان کا میڈیا ٹرائل بھی کیا جا سکتا ہے،لیکن ایف آئی اے کے پاس اُڑتے ہوئے ڈالر کی پرواز روکنے کے لئے کوئی نسخہ نہیں ہے۔ اس کا حل معاشی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اسد عمر کی وزارتِ خزانہ پر موجودگی میں جب سٹیٹ بینک نے ڈالر کی قیمت کم کی تھی تو وزیراعظم نے کہا تھا کہ اُنہیں تو کمی کا علم ٹی وی کی خبریں سننے سے ہوا، جبکہ سٹیٹ بینک کا موقف تھا کہ وزیر خزانہ کو فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا اُس وقت سے اب تک روپے کی قیمت میں تسلسل کے ساتھ کمی سے وزارتِ خزانہ آگاہ ہے یا نہیں یا اسے بھی ٹی وی خبروں سے حالات کا پتہ چلتا ہے، لیکن یہ امر یقینی ہے کہ اگر روپے کی بے قدری کا سفر نہ رُکا تو معیشت کی بربادی کا کوئی شمار و قطار نہیں رہے گا، یہ خواب دیکھا گیا تھا کہ روپے کی قیمت کم ہو گئی تو برآمدات بڑھیں گی،لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا،بلکہ اب خدشہ ہے کہ صنعتوں میں استعمال ہونے والے درآمدی خام مال سے پیداواری لاگت بڑھے گی تو برآمد کی جانے والی اشیا مزید مہنگی ہو جائیں گی اور عالمی منڈی کے مقابلے کی وجہ سے ان اشیا کے آرڈر بھی کم ہو جائیں گے، اِس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ طویل مدت کے سنہرے خواب دیکھنے اور دکھانے کی بجائے فوری طور پر ایسے اقدامات کئے جائیں کہ پہلے مرحلے میں روپیہ مزید گرنے سے روکا جائے اور پھر معاشی اقدامات کر کے اس کی قیمت میں اضافے کی کوشش کی جائے،لیکن ایسا ایف آئی اے کے انتظامی اقدامات سے نہیں ہو گا، معاشی پالیسیوں کو بہتر کرنا ہو گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -