بات چل نکلی ہے؟
نوابزادہ نصر اللہ خان(مرحوم) کہا کرتے تھے کہ دو سیاست دان آپس میں ملیں گے تو سیاست پر ہی بات کریں گے۔ان کی یہ بات درست ہے کہ سیاست دان تو رسمی اور غیر رسمی ملاقات میں حال احوال پوچھتے وقت بھی یہی انداز برقرار رکھتے ہیں،چہ جائیکہ کسی بہانے دو حضرات مل بیٹھیں،ابھی گزشتہ روز ہی سابق صدر آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن کی رہائش پر جا پہنچے اور ان سے ملاقات کی اور مولانا کو عمرہ کی ادائیگی پر مبارک باد دی،لیکن یہ اتنی ہی بات نہیں تھی۔ محترم قارئین یہ ہر دو بھی سیاست دان ہیں،ان کے درمیان سابقہ ملاقاتوں کی تجدید اور ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر ہی بات چیت ہوئی۔ یہ حضرات تو پہلے ہی سابقہ ملاقاتوں کے دوران حکومت مخالف وسیع تر اتحاد بنانے پر قائل ہو چکے ہیں، بات تو مسلم لیگ(ن) اور دوسری جماعتوں کی ہے کہ وہ سب بھی وسیع تر سیاسی اتحاد اور مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کرتی ہیں یا نہیں، اب اس مقصد کے لئے تقریب بہرملاقات کے طور پر بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں ایک گرینڈ افطار پارٹی کا اہتمام کیا ہے، جو آج اسلام آباد میں ان کی رہائش پر ہو گی،اس میں آج کے دور میں حکومت مخالف تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور منتخب اراکین شرکت کریں گے،تاہم حاضرین میں سب کی نگاہوں کا مرکز بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف بھی ہوں گی۔ مسلم لیگ(ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز کو شرکت کے لئے خود بلاول نے دعوت دی جو انہوں نے قبول بھی کر لی تھی، اب بڑا سوال جماعت اسلامی کے حوالے سے ہے،اس جماعت کے مرکزی امیر سراج الحق نے تو ابھی حال ہی میں کہا تھاکہ جماعت اسلامی کسی بھی حکومت مخالف تحریک میں شرکت نہیں کرے گی۔البتہ حکومت کے منفی اقدامات اور عوامی مسائل کے حوالے سے عوام سے رابطے کے لئے جماعتی مہم چلائے گی۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خود تو ملک سے باہر ہیں،ان کی عدم موجودگی میں مرکزی نائب امیر اول لیاقت بلوچ کی قیادت میں جماعت کا وفد شرکت کرے گا۔ان کے علاوہ دیگر جماعتوں،اے این پی، بی این پی(مینگل) اور دوسری جماعتوں کے اکابرین بھی شرکت کریں گے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس تقریب میں حزبِ اقتدار کو بھی بلایا گیا ہے کہ نہیں، اور کیا تحریک انصاف کے علاوہ ان کی حلیف جماعتوں کو بھی دعوت دی گئی یا نہیں،بظاہر ایسا ہونا تو نہیں چاہئے۔یہ ایک سیاسی افطار پارٹی ہے تو سب کو بلانا اور سب کو شرکت بھی کرنا چاہئے کہ سماجی اور معاشرتی رشتے تو برقرار رہیں، تاہم شک تو یہی ہے کہ موجودہ معروضی سیاسی صورتِ حال میں یہ ممکن نہیں ہو گا، دعوت دی ہی نہیں ہو گی اور اگر رسماً ایسا ہوا تو حزبِ اقتدار والے ہی گریز کریں گے۔یوں یہ اجتماع حکومت مخالف مجمع بن کر رہ جائے گا۔ظاہر ہے اس موقع پر بات حکومت مخالف وسیع تر اتحاد اور عیدالفطر کے بعد تحریک کی ہو گی،کیونکہ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری اپنی اپنی جگہ یہ فیصلہ کر چکے ہیں، مسئلہ صرف مسلم لیگ(ن) کا تھا، جس کے قائد نے اب اجازت دے دی ہے اور مریم نواز کی شرکت بھی یہی غمازی کرتی ہے۔یوں بھی بلاول اور مریم نواز کی ملاقات پہلی بار ہو گی،اب سب نظریں اس طرف ہیں۔
یہ امر یقینی ہے کہ ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات کی روشنی میں سب شرکاء اتفاق رائے کے حامل ہیں، تاہم تحریک کے حوالے سے جماعت اسلامی کی اپنی رائے ہے اور مرکزی امیر سراج الحق کہہ چکے ہیں کہ وہ تحریک کے لئے ساتھ نہیں دیں گے، لہٰذا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہو گا کہ جماعت کو رضا مند کیا جائے،ظاہر ہے یہ فریضہ مولانا فضل الرحمن ادا کریں گے، اگرچہ ایسا ممکن نہیں ہو گا،تاہم حالات حاضرہ پر اتفاق رائے یقینی ہے۔ جماعت کا وفد اس دعوتِ افطار میں ہونے والی بات چیت کو اپنی شوریٰ اور امیر جماعت کے گوش گذار کرنے کی حامی ضرور بھرے گا۔اگرچہ جماعت اسلامی ابھی تک اصولی طور پر یہ طے کئے ہوئے ہے کہ اب کسی اتحاد میں تو شریک نہیں ہونا،البتہ جماعت اپنے طور پر عوامی رابطہ مہم چلائے گی کہ انفرادیت پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے۔
یہ اکٹھ اس حد تک ضرور فائدہ مند ہو گا کہ ڈالر کی اڑان، قومی خزانے میں کمی، مہنگائی کے سونامی اور قرضوں کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے ہو گا۔رہ گئی بات متحد ہو کر تحریک چلانے کی تو اس کے لئے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو مزید محنت کرنا ہو گی۔یوں بھی کرپشن کے حوالے سے موثر پروپیگنڈے کے باعث تاحال اس لیڈر شپ پر عمومی عوامی رائے عامہ متفق نہیں ہے اور یہ ایک عیاں حقیقت ہے،جس کا ادراک ان قائدین کو بھی کرنا ہو گا۔اگرچہ حکومتی اقدامات اور مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری کے سونامی کے باعث نئے پاکستان کا خواب تو دھندلا چکا ہے۔ ”سٹیٹس کو“ کے مخالف کپتان کی حالیہ ساری ٹیم ”سٹیٹس کو“ کی حیثیت ہی برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہے۔ تحریک اور اتحاد کے حوالے سے بھی نوابزادہ نصر اللہ ہی کا نادر فارمولا یہ ہے کہ انفرادی طور پر ملاقاتیں جاری رکھیں اور الگ الگ رہنماؤں کے ساتھ امور طے کرتے چلے جائیں تو پھر ایک روز اجلاس بُلا کر دھماکہ کیا جا سکتا ہے،جیسے ماضی میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قائل کرنے کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کے سلسلے میں ہوا۔
بہرحال یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اب تک کئی انفرادی ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔شومیء قسمت سے اس افطار ڈنر کو ایک جھٹکا بھی لگا کہ پیپلزپارٹی پنجاب(مرکزی) کے صدر قمر زمان کائرہ کا جواں سال طالب علم صاحبزادہ اسامہ کار کے حادثے میں ایک دوست کے ساتھ اللہ کو پیارا ہو چکا اور پیپلزپارٹی نے ایک روز کے لئے سیاسی سرگرمیاں بھی معطل کرنے کا اعلان کیا اور گزشتہ روز اس محاذ پر خاموشی رہی۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے آج لالہ موسیٰ میں قمر زمان کائرہ کے ساتھ تعزیت کی اور مرحوم اسامہ کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔ قمر زمان کائرہ کو پیش آنے والے صدمے پر سبھی دُکھی ہیں اور ان کے ساتھ تعزیت کر رہے ہیں،اللہ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے۔