افغانستان میں بھارتی کردار؟
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے منتظم اور چیف مذاکرات کار شیر محمد عباس ستانکزئی نے کہا ہے کہ بھارت کو خطے سے دہشت گردی کا نیٹ ورک لپیٹنا ہو گا بھارت چالیس سال سے افغانستان میں موجود ہے لیکن اس کی طرف سے کبھی افغان عوام کی کوئی مدد نہیں کی گئی اس نے افغان عوام کی بجائے برسراقتدار بدعنوان گروہ کے ساتھ فوجی اور سیاسی تعلقات رکھ کر ملک کو نقصان پہنچایا بھارت افغانستان کی تعمیر نو کے لئے امن مذاکرات میں مثبت کردار ادا کرنا شروع کرتا ہے تو طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اگر بھارت افغانستان میں غداروں اور کٹھ پتلیوں کی حمایت کی دیرینہ پالیسی ترک کرکے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لئے کام بند کردے تو ہم اس کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہیں ان کا کہنا تھا کہ بھارت سمیت کسی ملک کو افغان سرزمین اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ستانکزئی نے کہا کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران بھارت نے کمیونسٹوں کی حمایت اور ان کا دفاع کیا جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ طالبان نے بھارت کے افغانستان میں کردار پر پہلی مرتبہ اتنا سخت موقف اختیار کیا ہے۔
طالبان رہنما نے بھارتی کردار کے بارے میں جو باتیں کہی ہیں وہ اگرچہ تلخ ہیں لیکن حقیقت کے بہت قریب ہیں، بھارت نے این ڈی ایس کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا ایک وسیع نیٹ ورک بنایا ہوا ہے جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرائی جاتی ہیں پاکستان ماضی میں کئی مواقع پر ایسے ٹھوس ثبوت افغان حکومت کو فراہم کر چکا ہے جس میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں افغان سرزمین استعمال ہوئی، پاکستان میں ایسے لوگ گرفتار ہوئے جو افغانستان کے راستے وارداتیں کرنے کے لئے پاکستان آئے اور ان وارداتوں میں موبائل ٹیلی فون کی ایسی سمیں استعمال ہوئیں جن پر دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایات ملتی تھیں، افغانستان میں بھارتی سفارت خانے اور قونصل خانوں کا کردار بھی اس ضمن میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب سے امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں امن معاہدہ ہوا ہے بھارت، افغان حکومت کے ساتھ مل کر اسے ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے اس خدشے کا اظہار معاہدے کے ساتھ ہی سامنے آ گیا تھا کہ جن ملکوں کو یہ معاہدہ پسند نہیں آیا وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس پر عملدرآمد رکوانے کی کوشش کریں گے۔
بھارت افغانستان کی ترقی کے نام پر وہاں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ وسیع کرتا رہا ہے جو افغان رہنما بھارت میں زیر تعلیم رہے یا جن کے وہاں کاروباری مفادات ہیں وہ بھی افغانستان میں بھارتی کردار کی نگرانی کرتے ہیں افغان میڈیا اور اخبارات کا ایک بڑا حصہ بھارت کی پروموشن میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب افغان اخبارات پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے سے بھرے ہوئے نہ ہوں۔ اس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان افغانستان کی ایسی قوت ہیں جس نے ہمیشہ بھارت کی لائن پر چلنے سے انکار کیا ہے اور طالبان کے چیف مذاکرات کار کا یہ تازہ انٹرویو کھل کر بھارتی کردار کو طشت ازبام کر رہا ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے، اس پر عملدرآمد کے نتیجے میں جلد از جلد افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد کم کر دے اس کے لئے وہ تشدد کی وارداتوں میں کمی کا منتظر ہے، امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اس سلسلے میں بھارت کی امداد بھی طلب کی ہے خود طالبان بھی مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں لیکن اس کے لئے بھارت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اور طالبان کو اس سے جو گلے شکوے ہیں انہیں دور کرکے افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا، جہاں عشروں سے امن خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے اب اگر اس کا امکان پیدا ہوا ہے تو خطے کے تمام ملکوں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے تاریخی کردار ادا کیا ہے اور جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے انہی قربانیوں ہی کا نتیجہ ہے کہ افغان سرحد کے راستے سے دہشت گردوں کی آمد کم ہوگئی، سرحد پر جو باڑ لگائی گئی ہے اس کی وجہ سے بھی دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ شروع شروع میں افغانستان نے اس باڑ پر اعتراض بھی کیا تھا حالانکہ یہ پاکستان کی سرحد کے اندر ہے پھر بھی باڑ لگاتے وقت چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا گیا غالباً اب افغان حکام کو بھی اس کی افادیت کا ادراک ہو گیا ہے اب ایران کی سرحد کے ساتھ بھی ایسی ہی باڑ لگائی جائے گی تو امید ہے اس سرحد پر بھی دہشت گردوں کی سرگرمیاں کنٹرول ہو جائیں گی یہ تمام اقدامات مجموعی طور پر خطے کے تمام ملکوں کے وسیع تر مفادات میں ہیں۔اگر دہشت گردی کنٹرول ہو گی تو تمام ملک ہی اس کی برکات سے مستفید ہوں گے۔ طالبان رہنما نے بھارت کے ساتھ مذاکرات پر جس آمادگی کا اظہار کیا ہے اگر اس کے نتیجے میں کوئی بات چیت شروع ہوتی ہے تو اس کا فائدہ بھی خطے کے ملکوں کو ہو گا۔ بھارت کو آنے والے دنوں میں بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کرنا ہوگا۔ یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ طالبان افغانستان کی ایسی قوت ہیں جنہیں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا امریکہ کو بھی افغان پہاڑوں کے ساتھ انیس سال سر ٹکرانے کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ طالبان کو نظر انداز کرکے امن کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا، امریکی دانشور بھی اب تسلیم کرنے لگے ہیں کہ امریکہ نے طالبان کو نظر انداز کرکے غلطی کی تھی،قطر معاہدہ اسی غلطی کے اعتراف کے بعد ممکن ہوا، اس لئے اب بھارت کا بھی فرض ہے کہ وہ افغان سرزمین کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا دیرینہ رویہ ترک کر دے اور سیاسی اور طاقت کے کھیل میں کٹھ پتلیوں کا کردار ہمیشہ محدود اور وقتی ہوتا ہے اور جونہی اس راز سے پردہ اٹھتا ہے کٹھ پتلیوں کا کھیل بھی ختم ہو جاتا ہے۔ طالبان رہنما نے کھل کر بھارتی کردار کی وضاحت بھی کر دی ہے اور مذاکرات پر آمادگی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ بھارت کو تبدیل شدہ کردار کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ نئے زمانے میں اب پرانے طور طریقے نہیں چل سکیں گے۔ امید ہے امن کی خاطر بھارت اپنا طرز عمل بدلنے پر بھی مجبور ہوگا۔